• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

فرض نماز کےبعداورنماز جنازہ کےبعد دعامانگنے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

درج ذیل مسئلہ میں فتویٰ درکار ہے۔

میں اپنی مسجد میں امامت کرواتا ہوں۔ میں الحمدللہ دیوبندی (حیاتی) ہوں۔ ہمارے ساتھ تقریباً دو سو میٹر کے فاصلے پر بریلویوں کی مسجد ہے۔ میری کبھی کبھی اس مسجد کے امام سے اختلافی مسائل پر بات چیت ہوتی رہتی ہے اور اچھے انداز میں کوئی غصہ نہیں کرتا ہم میں سے۔ چار پانچ دن پہلے دعا متصل بعد جنازہ پر کچھ بات ہوئی۔ بات تو کافی لمبی تقریباً پونا گھنٹہ ہوئی لیکن آخر پر انہوں نے ایک اشکال ہم دیوبندیوں پر کِیا۔ وہ یہ کہ اگر ہم دعا کرتے ہیں جنازہ کے فوراً بعد اور یہ ثابت بھی نہیں ہے تو آپ بھی تو فرض نماز کے بعد جو چھوٹی سی دعا کرتے ہیں وہ بھی کہیں بھی ثابت نہیں ہے اگرچہ کرواتے ہم بھی ہیں لیکن اگر اصول کی بات کریں تو دونوں غلط کرتے ہیں۔ اور آپ اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ ہم نے اپنے اکابر کو کرواتے دیکھا ہے، لہذا ہم بھی یہی جواب دیتے ہیں۔ جو آپ کا جواب وہی ہمارا جواب۔ میں نے کہا کہ دیکھیں ہم اس کو ضروری یعنی فرض واجب تو نہیں قرار دیتے۔ تو کہنے لگے کہ ہم بھی فرض واجب کا درجہ نہیں دیتے لیکن جس طرح آپ اس کو ترک نہیں کرتے اسی طرح ہم بھی نہیں ترک کرتے۔ اور اگلی بات انہوں نے یہ کہی کہ دیکھیں ہم مولویوں کو تو پتہ ہے اس بات کا لیکن عوام تو ضروری ہی سمجھتی ہے ناں فرضوں کے بعد والی دعا کو۔ آپ کسی دن نہ کروا کے دیکھیں لوگ دوسرے دن مسئلہ کھڑا کر دیں گے۔ میں نے کہا کہ چلیں میں فتویٰ پوچھتا ہوں اگر چھوڑنا بہتر ہوا تو میں چھوڑ دوں گا ان شاءاللہ اور مقتدیوں کو بھی اچھے انداز میں سمجھا لوں گا اور آپ بھی پھر جنازے کے بعد والی چھوڑ دیں گے۔ کہنے لگے ٹھیک ہے طے ہو گیا۔

اب فتویٰ چاہیئے

کہ کیا یہ نماز کے فرضوں کے بعد والی دعا کروانی چاہیئے؟ کیا یہ بدعت کے حکم میں آتی ہے ؟ اگر چھوڑنی بہتر ہے اور مقتدیوں کو بھی اعتراض نہ ہو تو کیا میں چھوڑ دوں؟ علاقہ کی اگر دوسری دیوبندی مساجد میں یہ بات پھیلتی ہے تو میں ان کو یہ فتویٰ دکھا سکوں۔ برائے مہربانی واضح حکم بتا دیجیئے۔ جزاکم اللہ خیرا

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

فرض نمازوں کے بعد دعا کی روایات بھی بکثرت ہیں اور حضرات فقہاء کرام نے بھی فرض نمازوں کے بعد دعا کو لکھا ہے۔ تفصیل دیکھنی ہو تو ’’کفایت المفتی‘‘ (355/3، طبع: دارالاشاعت کراچی) میں اس بارے میں باقاعدہ ایک مختصر سا رسالہ ہے، اسے دیکھ لیں۔ جبکہ نماز جنازہ کے بعد دعا کا تذکرہ نہ تو احادیث میں ہے اور نہ ہی فقہاء نے اس کو ذکر کیا ہے بلکہ فقہاء کرام کی بعض عبارات میں تو اسے مکروہ کہا گیا ہے۔

فتاویٰ خلیلیہ: (128 ) میں ہے:

سوال: ما قولہم دریں مسئلہ کہ بعد نماز جنازہ خواندن سورہ اخلاص و فاتحہ و دعا برائے میت جائز است یا نہ؟

الجواب: خالی از کراہت نیست زیرا کہ اکثر فقہاء بوجہ زیادہ بودن بر امرِ مسنون منع میکند و بعضے میگو ید لا باس بہ، و کلمۃ لا باس بہ اکثر در کراہت تنزیہی مستعمل می شود،  و في البرجندي لا يقوم بالدعاء بعد صلاة الجنازة لأنه يشبه الزيادة فيها كذا في المحيط، و عن أبي بكر بن حامد أن الدعاء بعد صلاة الجنازة مكروه، و قال محمد بن الفضل لا بأس به. انتهى، و في القنية عن أبي بكر بن حامد أن الدعاء بعد صلاة الجنازة مكروه و قال محمد بن الفضل لا بأس به ناقلاً عن المحيط، و أيضاً فيه لا يقوم الرجل بالدعاء بعد صلاة الجنازة، قال رضي الله عنه لأنه يشبه الزيادة في صلاة  الجنازة ناقلاً عن علاء السعدي و شرح السرخسي، و في خلاصة  الفتاوى لا يقوم بالدعاء بعد صلاة الجنازة، انتهى. بقدر الحاجة

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved