• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زبردستی تحریری طلاق

استفتاء

ہمارا چھوٹا سا مسئلہ ہے مہربانی کر کے ہمارا مسئلہ حل کریں۔ میں بہت غریب ہوں۔ میری بیوی چھوٹی سی رنجش کی وجہ سے ناراض ہو کر اپنی چاچی کے پاس چلی گئی۔ چھ سات دن چاچی کے پاس رہی، میری بیوی کے والد نہیں تھے صرف والدہ تھی بیوی کے چچا نے بغیر حصہ دیے ماں بیٹی کو گھر سے نکال دیا اور پھر ماں کی رضامندی سے ہماری شادی ہوگئی۔ اب ہمارے چار بچے ہیں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بس ہماری چھوٹی سی بات پر میری بیوی اپنی چاچی کے پاس چلی گئی جس کا اس نے فائدہ اٹھایا اور میری بیوی کی پھوپھیوں کو اپنے سامنے لا کر پھوپھیوں کے کہنے پر میری بیوی کو ورغلایا اور اپنے  ہاتھوں پر لگا لیا اور چاچی نے کہا کہ آکر اپنی بیوی کو لے جا۔ طلاق کے دستخط 2007- 9- 30، تین دن ہوئے ہیں۔ اور میں اپنے بچوں کو ساتھ لے کر اپنی بیوی کو لینے کے لیے اوکاڑہ چلا گیا۔ جب میں گیا تو انہوں نے میرے جانے سے پہلے ہی طلاق کے سارے کاغذ تیار کرواکر رکھے ہوئے تھے جب مجھے پتہ چلا کہ یہ سب مل کر طلاق دلوانا چاہتے ہیں اور میں اس کے حق میں نہیں تھا۔ میں نے کہا نہیں میں طلاق نہیں دوں گا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہم نے طلاق لینی ہے میں بالکل راضی نہیں تھا اور میری بیوی کے چچا زاد بھائی نے مجھے اپنے ساتھ لے گیا اور میں نے راستے میں کہا کہ میری بیوی کو سمجھاؤ اس نے کہا کہ اچھا وکیل کے گھر جا کر اس کو سمجھاتے ہیں اور مجھے اپنے ساتھ وکیل  کے گھر لے گیا اور سارے کاغذ خود ہی تیار کر لیے اور میں نے پھر بھی کہا نہیں میں نے طلاق نہیں دینی اور وکیل نے کہا اگر تم طلاق نہیں دو گے تو تمہاری بیوی عدالت میں جائے گی تم سے خرچہ لے گی تمہیں کورٹ میں لے کر جائے گی۔ مجھے بہت ڈریا، مجھے مار پیٹ کی دھمکی بھی دی۔ میں نے پھر بھی اپنی بیوی سے کہا کہ اب بھی مان جاؤ اپنے گھر چلو اپنے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں لیکن وہ نہیں مانی، کیونکہ وہ اپنی چاچی کے ہاتھوں پر بکی ہوئی تھی اورا س کو پھوپھیوں نے کہا کہ تم طلاق لے لو ہم وہی عزت دیں گے جو تمہیں پہلے دی تھی۔ بس ان سب کی باتوں میں آگئی کیونکہ وہ بہت امیر ہیں اس کو یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ تو اپنا بدلہ لینا چاہتی ہیں اور مجھ سے زبردستی دستخط کروائے اور نہ ہی میرے پاس کوئی گواہ تھا مجھ سے گواہ کے نام پوچھے میں نے نہیں بتایا اور میں نہ ہی دل سے راضی تھا اور نہ ہی میں نے منہ سے کہا ۔ اور میری بیوی نے گواہ کے نام بتائے اور گواہ کے دستخط بھی مجھے سے کروائے میں تم کو طلاق دیتا ہوں میں تو ۔۔۔۔ وقت تک نہیں چاہتا تھا کہ ہماری مسئلہ ہو جائے۔ میں نے اپنی ساس کو بھی کہا کہ اس کو سمجھائے لیکن سب ہی آپس میں ملے ہوئے تھے۔ اور وکیل نے دباؤ کے ساتھ سائن کروا لیے اور کہا کہ میں ابھی یہ کاغذ عدالت میں نہیں بھیجوں گا میں ان کو چار پانچ دن اپنے پاس رکھوں گا شاید ان دنوں میں تمہاری رضامندی ہو جائے۔ میں نے کہا ابھی کاغذ اپنے پاس رکھنا اورجب میں واپس آیا اور دوسرے ہی دن میری بہن نے میری بیوی کو فون کیا اور اس سے پوچھا کہ تمہارا غصہ کم ہوا ہو تو اپنے گھر واپس لوٹ آؤ۔ میری بیوی نے کہا کہ میری چاچی نے ہمیں اپنے گھر سے نکال دیا ہے اور ہم کہیں اور چلے گئے ہیں اور وکیل نے کاغذ عدالت میں بھیج دیے ہیں اور ایک کاغذ میری بیوی کو دے دیا اور ایک کاغذ میرے پاس بھیج دیا، لیکن وہ مجھے ابھی نہیں ملا،لیکن میری بیوی اب پچتا رہی ہے کہ میں نے جذبات میں آکر اور اپنی چاچی کے کہنے پر طلاق لے لی ہے اور اب میں تمہارے پاس واپس آنا چاہتی ہوں اور میں بھی اس کو رکھنے کے لیے تیار ہوں۔ اس لیے یہ مسئلہ آپ کے پاس بھیج رہا ہوں یہ سب مجھ سے زبردستی کروایا ہے اس سب میں میں راضی نہیں ہوں۔ ہمارا مسئلہ حل کریں ہمارا گھر بس جائے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ پھر بھی دو گواہوں کے سامنے نکاح دوبارہ پڑھوالیں۔

فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة و لا حاجة هنا. كذا في الخانية. ( شامی: 2/ 457) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved