• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مکان کو منحوس سمجھ کر تبدیل کرنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک شخص نے رہائش کے لیے ایک مکان لیا تو اس کو بیماریوں اور دیگر بہت سی پریشانیوں نے آگھیرا جس کی وجہ سے وہ اور اس کے گھر والے گھر سے بدشگونی لینے لگے۔تو کیا ان کے لیے اس گھر کو چھوڑنا جائز ہوگا؟

جواب:بسا اوقات ممکن ہے کہ کچھ مکانات ،سواریاں یا بیویاں منحوس ہوں ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت ان کی صحبت میں نقصان فوائد کی کمی رکھی ہوتی ہے یا اسی طرح کی کوئی منفی بات رکھی ہوتی ہے ۔اس بنا پر ایسے گھر کو فروخت کر کے دوسرے گھر میں منتقل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

کیا مذکورہ جواب درست ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ جواب درست نہیں ،کیونکہ اس جواب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعض مکانات ،سواریوں اور بیویوں میں نحوست ممکن ہے حالانکہ اسلامی نقطہ نظر سے یہ بات درست نہیں اور جس حدیث سے ان میں نحوست ہونا معلوم ہوتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں جو مجیب نے سمجھا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو ان مذکورہ چیزوں میں ہوتی لیکن چونکہ ان میں نحوست نہیں ہے لہذا معلوم ہوا کہ کسی چیز میں نحوست نہیں۔

فتح الباری شرح صحیح البخاری (149/6)  میں ہے:

عن سهل بن سعد الساعدى رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه و سلم قال:ان كان (الشؤم . الناقل) فى شيء ففى المراة و الفرس المسكن.البخارى

قال ابن الحجر فى شرحه: قال بن العربي معناه إن كان خلق الله الشؤم في شيء مما جرى من بعض العادة فإنما يخلقه في هذه الأشياء .

ترجمہ:حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :اگر (نحوست بالفرض) کسی چیز میں ہوتی تو عورت ،گھوڑے اور گھر میں ہوتی۔صحیح بخاری

حافظ ابن حجر عسقلانی ؒنے اس حدیث کی تشریح میں فرمایا کہ:ابن عربیؒ نے فرمایا ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالی مے نحوست اان چیزوں میں سے کسی چیز میں پیدا کرنی ہوتی جس کے بارے میں لوگوں کا اعتقاد ہے تو  ان(مذکورہ) چیزوں میں پیدا کرتے۔

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح(353/8) میں ہے:

وعليه كلام القاضي حيث قال : ووجه تعقيب قوله ولا طيرة بهذه الشرطية (ان كان الشؤم.الناقل) أنها تدل على أن الشؤم أيضا منفي عنها والمعنى أن الشؤم لو كان له وجود في شيء لكان في هذه الأشياء فإنها أقبل الأشياء لها لكن لا وجود له فيها فلا وجود له أصلا .

ترجمہ:اور اس پر قاضی ؒ کا کلام یہ ہے کہ انہوں نے فرمایا:کہ آپﷺ کا  ’’کوئی نحوست نہیں ہے‘‘ کے بعد یہ شرط ذکر کرنا (کہ اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی۔۔۔از ناقل)  دلالت کرتا ہے اس بات پر کہ نحوست کی بھی نفی کی گئی ہے یعنی نحوست اگر کسی چیز میں پائی جاتی تو ان (مذکورہ) چیزوں میں ہوتی کیونکہ یہ چیزیں نحوست کو زیادہ قبول کرنے والی ہیں لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) نحوست ان میں بھی نہیں پائی جاتی تو گویا وہ سرے سے پائی ہی نہیں جاتی۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved