• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نماز کے بعد سر پر ہاتھ کردعا پڑھنا اورتعوذ کی حیثیت

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

1)کیا نماز کے بعد پیشانی پر ہاتھ ر کھنا سنت ہے؟اس کے متعلق وضاحت مطلوب ہے۔

2)نماز کے علاوہ قرآن مجید کی تلاوت سے قبل تعوذ کا کیا درجہ ہے؟دونوں سوال باحوالہ درکار ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1)نماز کے بعد پیشانی یا سر پر خالی ہاتھ رکھنا تو سنت نہیں البتہ بعض روایات میں سر پر ہاتھ رکھ کر مندرجہ ذیل دعا پڑھنا ثابت ہے ۔دعا یہ ہے:

بسم الله الذي لا اله الا هو الرحمن الرحيم اللهم اذهب عني الهم والحزن

كتاب الدعاء للطبراني1/1095)میں ہے:

عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن النبي كان إذا صلى وفرغ من صلاته مسح بيمينه على رأسه وقال بسم الله الذي لا إله غيره الرحمن الرحيم اللهم أذهب عني الهم والحزن

مجمع الزوائد8/34)میں ہے:

وعن أنس بن مالك أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا صلى وفرغ من صلاته مسح بيمينه على رأسه وقال:”بسم الله الذي لا إله إلا هو الرحمن الرحيم، اللهم أذهب عني الهم والحزن

کفایت المفتی  9/77)میں ہے:

سوال بعد نماز فرض بعض  لوگ پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہیں کیا یہ فرض ہے یا واجب یا سنت یا مستحب ؟

جواب:پیشانی یا سر کے اگلے حصے پر ہاتھ رکھنا اور یہ الفاظ پڑھنا

بسم الله الذي لا اله الا هو الرحمن الرحيم اللهم اذهب عني الهم والحزن  مستحب ہے فرض یا واجب یا سنت موکدہ نہیں۔

2)قرآن  پاک کی تلاوت سے پہلے تعوذ پڑھنا مسنون ہے۔

بیان القرآن میں ہے:

فاذا قرات القرآن فاستعذ بالله من الشيطن الرجيم(النحل 98)

یعنی دل سے خدا پر نظر رکھنا کہ حقیقت استعاذہ کی ہے اور زبان سے بھی کہہ لینا قراءت میں مسنون ہے۔

معارف القرآن مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ 5/401

مسئلہ :تلاوت قرآن سے پہلے  اعوذ بالله من الشيطن الرجيم  کا پڑھنا اس آیت کی تعمیل کے لیے ثابت ہے اس لیےجمہور علماءامت نے اس حکم کو واجب نہیں بلکہ سنت قرار دیا ہے اور ابن جریر طبری نے اس پر اجماع امت نقل کیا ہے ۔

تفسیر عثمانی میں ہے:

فاذا قرات القرآن فاستعذ بالله من الشيطن الرجيم(النحل 98)

حدیث میں ہے "خَیْرُ کُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرآنَ وَ عَلَّمَہ،” (تم میں بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھلائے) معلوم ہوا کہ مومن کے لیے قرأتِ قرآن بہترین کام ہے۔ اور پچھلی آیات میں دو مرتبہ بہتر کاموں پر اجر ملنے کا ذکر تھا۔ اس لیے یہاں قرأت قرآن کے بعض آداب کی تعلیم فرماتے ہیں تاکہ آدمی بےاحتیاطی سے اس بہتر کام کا اجر ضائع نہ کر بیٹھے۔ شیطان کی کوشش ہمیشہ یہ رہتی ہے کہ لوگوں کو نیک کاموں سے روکے خصوصاً قرأتِ قرآن جیسے کام کو جو تمام نیکیوں کا سرچشمہ ہے، کب ٹھنڈے دل سے گوارا کرسکتا ہے۔ ضرور اس کی کوشش ہوگی کہ مومن کو اس سے باز رکھے، اور اس میں کامیاب نہ ہو تو ایسی آفات میں مبتلا کر دے جو قرأتِ قرآن کا حقیقی فائدہ حاصل ہونے سے مانع ہوں ۔ ان سب مغویانہ تدبیروں اور پیش آنے والی خرابیوں سے حفاظت کا یہ ہی طریقہ ہوسکتا ہے کہ جب مومن قرأتِ قرآن کا ارادہ کرے، پہلے صدق دل سے حق تعالیٰ پر بھروسہ کرے اور شیطان مردود کی زد سے بھاگ کر خداوند قدوس کی پناہ میں آجائے۔ اصلی استعاذہ (پناہ میں آنا) تو دل سے ہے۔ مگر زبان و دل کو موافق کرنے کے لیے مشروع ہے کہ ابتدائے قرأت میں زبان سے بھی اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved