• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کروناوائرس سے متعلق چند مسائل(معمولی اضافوں کےساتھ)

استفتاء

1۔عام حالات میں ماسک لگا کرنمازپڑھنامکروہ تحریمی ہے لیکن جن افراد کو کروناوائرس کیو جہ سے قانونی یا طبی لحاظ سے ماسک لگنا ضروری ہو ان کےلیے مکروہ نہیں۔

سنن ابوداؤد(2/120)میں ہے:

عن ابي هريرة رضي الله عنه ان رسول الله صلي الله عليه وسلم نهي عن السدل في الصلاة وان يغطي الرجل فاه

بدائع الصنائع ميں ہے:

ويكره أن يغطي فاه في الصلاة لأن النبي نهى عن ذلك ولأن في التغطية منعا من القراءة والأذكار المشروعة ولأنه لو غطى بيده فقد ترك سنة اليد وقد قال كفوا أيديكم في الصلاة

 ولو غطاه بثوب فقد تشبه بالمجوس لأنهم يتلثمون في عبادتهم النار والنبي نهى عن التلثم في الصلاة إلا إذا كانت التغطية لدفع التثاؤب فلا بأس به لما مر

وکذا في البحرالرائق (2/27)،والفتاوي الهندية(1/107) والدرالمختار وردالمحتار (1/652) وحاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح(ص:237) وتبيين الحقائق (2/279)

2۔کرونا وائرس ایک وبائی مرض ہے اوروبائی مرض سے بچاؤکےلیےبطور علاج اذان دینا جائز ہے تاہم یہ سنت یا مستحب عمل نہیں ،لہذا بہتر یہ ہے کہ اس کےبجائے سنت اعمال دعا،استغفار،توبہ،صدقہ میں لگا جائے لیکن جو اذان دے اس پر انکار بھی نہ کیا جائے۔

کفایت المفتی (3/51)میں ہے:

سوال :دفع وبا ء  کے لئے اذان دینا جائز ہے یا نہیں ؟  تنہا یا گروہ کے ساتھ مسجد میں یا گھر میں ؟

جواب :  دفع وبا ء کے لئے اذانیں دینا تنہا یا جمع ہوکر بطور علاج اور عمل کے مباح ہے سنت یا مستحب  نہیں  ہے۔

نوٹ:جوعمل علاج کےطور پرکیاجائے اس کاقرآن وحدیث سے ثابت ہونا ضروری نہیں بلکہ اس عمل کامجرب ہونا کافی ہے۔

3۔حکومت کی طرف سے جمعہ میں افراد کو محدود کرنا اذان عام کے خلاف نہیں ،کیونکہ یہ محدود کرنا جمعہ قائم کرنےوالوں کی جانب سے نہیں بلکہ حکومت کی طرف سے ہے ،لہذا جن مساجد میں حکومت کی طرف سے محدود افراد کو جمعہ پڑھنے کی اجازت ہے ان میں بھی جمعہ قائم کیاجائے بشرطیکہ جمعہ قائم کرنے کی دیگر شرائط بھی پائی جائیں۔

فتاوی شامی (3/28)میں ہے:

والسابع:الاذن العام من الامام وفي الشامية:قوله (من الامام)قيدبه بالنظرالي المثال الآتي والافالمراد الاذن من مقيمها…الخ

4-جن افراد کو حکومت نے جمعہ یا جماعت میں حاضرہونے سے منع کردیا ہویا جو افراد کرونا وائرس کے مرض میں مبتلا ہوں ان کےلیے جمعہ یا جماعت میں شریک نہ ہونے کی اجازت ہے۔

5۔جوافرادجماعت میں حاضرہونے سے معذورہوں وہ گھروں میں باجماعت نماز ادا کرنے کی کوشش کریں۔محلے کی مسجد میں اذان ہونے کےباوجود بھی گھر میں باجماعت نماز پڑھنے کی صورت میں اذان اوراقامت کہنا مستحب ہے۔

6۔جوافراد جمعہ میں حاضرہونے سے معذورہوں وہ گھروں میں جمعہ کی بجائے ظہرکی نمازپڑھیں،اورشہروں یا بڑے قصبات میں ایسے لوگ جمعہ کےدن ظہرکی نماز جمعہ کی نمازکےبعد ادا کریں اورانفرادی اداکریں ،جماعت سے نہ پڑھیں۔

اعلاء السنن (8/78)میں ہے:

2061:حدثنا عبدالسلام بن حرب عن القاسم بن الوليد قال قال علي رضي الله عنه لاجماعة يوم الجمعة الامع الامام رواه ابوبکربن ابي شيبة في مصنفه(ص:352)قلت اسناده حسن لکنه منقطع فان القاسم من کبار اتباع التابعين وهو حجة عندنا

2022:ويؤيده مافي کنبزالعمال(4/274)عن علي رضي الله عنه قال لايجمع القوم الظهر يوم الجمعة في موضع يجب عليهم فيه شهود الجمعة رواه نعيم بن حماد في نسخته اھ والسند لم اطلع عليه ولکن لاينزل عن رتبة الضعيف لجلالة الحافظ السيوطي وقد تايدبمرسل القاسم فحصل للمجموع قوة

بدائع الصنائع(1/605)

وأما ما يكره في يوم الجمعة فنقول تكره صلاة الظهر يوم الجمعة بجماعة في المصر في سجن أو ( ( ( وغير ) ) ) غير سجن هكذا روي عن علي رضي الله عنه وهكذا جرى التوارث بإغلاق أبواب المساجد في وقت الظهر يوم الجمعة في الأمصار فدل ذلك على كراهة الجماعة فيها في حق الكل ولأنا لو أطلقنا للمعذور إقامة الظهر بالجماعة في المصر فربما يقتدي به غير المعذور فيؤدي إلى تقليل جمع الجمعة وهذا لا يجوز ولأن ساكن المصر مأمور بشيئين في هذا الوقت بترك الجماعات وشهود الجمعة والمعذور قدر على أحدهما وهو ترك الجماعات فيؤمر بالترك

تنوير الابصار مع الدرالمختار(3/32)طبع :دارعالم الکتب ریاض)میں ہے:

( وكره ) تحريما ( لمعذور ومسجون ) ومسافر ( أداء ظهر بجماعة في مصر ) قبل الجمعة وبعدها لتقليل الجماعة وصورة المعارضة وأفاد أن المساجد تغلق يوم الجمعة إلا الجامع ( وكذا أهل مصر فاتتهم الجمعة ) فإنهم يصلون الظهر[1] بغير أذان ولا إقامة ولا جماعة

علامہ شامی ؒ لکھتے ہیں:

قوله ( لمعذور ) وكذا غيره بالأولى

قوله ( تحريما ) ذكر في البحر أنه ظاهر كلامهم  قلت بل صرح به القهستاني

قوله ( لتقليل الجماعة ) لأن المعذور قد يقتدى به غيره فيؤدي إلى تركها

[1] ۔في الحاشية: قال  المؤلف :دلالة اثرعلي رضي الله عنه علي الجزء الاول من الباب ظاهرة ۔وفي رحمة الامة(ص:31)واتفقوا علي انه اذافاتتهم صلاة الجمعة صلوا ظهرا۔وهل يصلون فرادي او جماعة؟قال ابوحنيفة ومالک فرادي اه وفي البحر فان اداء الظهر بجماعة مکروه يوم الجمعة

 بحر  وكذا إذا علم أنه يصلي بعدها بجماعة ربما يتركها ليصلي معه فافهم

 قوله ( وصورة المعارضة ) لأن شعار المسلمين في هذا اليوم صلاة الجمعة وقصد المعارضة لهم يؤدي إلى أمر عظيم فكان في صورتها كراهة التحريم، رحمتي

قوله ( وكذا أهل مصر الخ ) الظاهر أن الكراهة هنا تنزيهية لعدم التقليل والمعارضة المذكورين ويؤيده ما في القهستاني عن المضمرات يصلون وحدانا استحبابا

تنبیہ:فتاوی شامی کی ذکرکردہ اس عبارت: الظاهر أن الكراهة هنا تنزيهية لعدم التقليل والمعارضة المذكورين

سے معلوم کہ جن صورتوں میں تقلیل جماعت جمعہ اورجمعہ کی جماعت کےساتھ معارضہ موجو د نہیں ان میں بھی معذورین کےلیے جمعہ کےدن ظہرکی جماعت مکروہ تنزیہی ہے۔

7۔اگرکوئی اپنے گھرمیں جمعہ کرانا چاہے تو اس کی ممکنہ صورت یہ ہے کہ پورے محلے میں یہ اطلاع کردی جائے کہ ہمارے گھر میں فلاں وقت پرنماز جمعہ اداکی جائے گی اورگھر کادروازہ کھلارہے گالہذا کوئی شخص جمعہ میں شرکت کےلیے آنا چاہیے توہماری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ،البتہ کوئی قانونی رکاو یا طبی وجہ سے نہ آنا چاہے تووہ نہ آئے تو ایسی صورت میں گھر  میں نمازجمعہ اداکرناجائز ہے بشرطیکہ دیگرشرائط کالحاظ کرلیا گیاہو۔

فتاوی شامی (3/30)میں ہے:

ولوفتحه واذن للناس جاز وکره وفي الشامية قوله (اذن للناس الخ)مفاده اشتراط علمهم بذلک وفي منح الغفار وکذا اي لايصح لوجمع في قصره لحشمه ولم يغلق الباب ولم يمنع احدا الاانه لم يعلم الناس بذلک قوله (وکره )لانه لم يقض حق المسجد الجامع

تنبیہ:عام حالات میں مذکورہ شرائط پائے جانے کےباوجود گھروں میں جمعہ قائم کرنا مکروہ ہے جیساکہ علامہ شامیؒ کی عبارت ’’وکره  لانه لم يقض حق المسجد الجامع‘‘سے معلوم ہورہا ہے مگرچونکہ مذکورہ حالات مجبوری کے ہیں ،لہذا ان حالات میں کراہت نہ ہوگی۔

8۔جومسلمان کروناوائرس کیو جہ سے فوت ہوجائے اسے بھی باقاعدہ غسل دیاجائے اوراس کی تجہیز وتکفین ،نماز جنازہ اورتدفین کاعمل بھی باقاعدہ کیاجائے ،لیکن اگرطبی احتیاطی تدابیر کےپیش اسے باقاعدہ غسل دینا یا اس کی تجہیز وتکفین ، نماز جنازہ اورتدفین کاعمل باقاعدہ کرنا ممکن نہ ہو توغسل دینے میں اگریہ ممکن ہوکہ اس کےجسم پرسرسےلے کرپاؤں تک غسل کی نیت سے پانی بہادیاجائے(خواہ دورکھڑے ہوکرکسی پائپ وغیرہ کےذریعے بہادیا جائے)تویہ بھی کافی ہے اسی طرح کفن دینے میں بغیر سلے کسی پاک کپڑے میں لپیٹ دیا جائے تویہ بھی کافی ہے ۔نماز جنازہ میں کم از کم ایک مسلمان بھی میت کےسامنے کھڑے ہوکرنماز جنازہ کی نیت سے چار تکبیریں کہہ کرسلام پھیردے تو اس سے بھی نماز جنازہ اداہوجائے گا۔

نوٹ:مسلمان میت کی تجہیز وتکفین کےلیے اگرعلاقہ وار کچھ رضاکار تیار کیےجائیں جوطبی احتیاطی تدابیر کالحاظ کرتے ہوئے تجہیز وتکفین کانظم بنائیں تویہ بڑے ثواب کی بات ہوگی۔

9۔عام حالات میں جماعت کی نماز میں دوصفوں کےدرمیان اتنافاصلہ چھوڑنا کہ اس مںی ایک اورصف بن جائے یا ایک ہی صف میں دائیں بائیں فاصلہ چھوڑ کرکھڑاہونا مکروہ ہے البتہ اگرحکومتی پابندی یاطبی احتیاطی تدبیرکی وجہ سے ایساکرنا پڑےتو پھر مکروہ نہیں۔

10۔جن مساجد میں ایک وقت میں چار پانچ افراد سے زائد کےلیے جماعت کرانا قانونا منع ہو ایسی مساجد میں چارپانچ افراد کی ٹولیاں بناکریکے بعددیگرے متعدد جماعتیں بھی کرائی جاسکتی ہیں بشرطیکہ ایسا کرنا قانوناًمنع ہو۔

نوٹ:مذکورہ مسائل دارالافتاء والتحقیق جامعہ دارالتقوی کےمفتی حضرات کی رائے کے مطابق ہیں لہذا مذکورہ مسائل میں سے جس مسئلے میں دیگراہل حق مفتی حضرات کا اختلاف ہو اورکوئی شخص ان حضرات میں سے کسی پراعتماد کی وجہ سے ان کی رائے پرعمل کرنا چاہے تو وہ اس پرعمل کرے لیکن باہم بحث ونزاع کی صورت اختیار نہ کی جائے ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved