• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

عورت تین طلاق سننے کا دعوی کرتی ہے اور مرد تیسری طلاق کا منکرہے

  • فتوی نمبر: 2-334
  • تاریخ: 26 جولائی 2009
  • عنوانات:

استفتاء

میری شادی کو تقریبا چودہ سال گذرگئے ہیں آج سے تقریبا دس سال قبل میرے شوہر نے مجھے جھگڑے کے دوران کہا ” میں  نےتجھے طلاق دی” ا س کے بعد صلح ہوگئی میں گھر میں ہی رہی ۔ تقریبا ڈیڑھ دوسال بعد اسی طرح لڑائی کرتے ہوئے انہوں نے کہا ” میں تجھے طلاق دے دیتاہوں” یا میں تجھے طلاق دیتاہوں” اس میں مغالطہ ہے صحیح الفاظ سنائی نہیں دیئے۔ اس کے بعد پھر ہم لوگ اکٹھے ہی رہے۔ پھر اسی طرح عرصہ سال بعد انہوں نے کہا” میں نے تجھے طلاق دی” اس کے بعد میرے بھائی  نے کسی مفتی صاحب سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ دوبارہ نکاح کردیں ۔ لہذا دوبارہ نکاح ہوا ۔ اس کے بعد کافی عرصہ گذر گیا۔ اب تقریبا آٹھ نو ماہ قبل انہوں نے پھر کہا” میں نے تجھے طلاق دی” میں یہ الفاظ سنے لیکن وہ کہتے ہیں کہ میں بالکل لا علم ہوں کہ یہ الفاظ کیسے میری زبان سے نکل گئے ۔، میں نے ایسا نہیں کہا ۔ اس میں ان کے بار بار یقین دلانے پر تقریبا تین ماہ گذرنے سے پہلے  رجوع ہواہے۔ میرے تین بچے ہیں جن کی عمریں بتدریج  ساڑھے آٹھ ، ساڑھے چھ، ساڑھے چار سال ہیں۔ میں اپنے بچوں کی وجہ سے بہت پریشان ہوں لیکن دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتی ہوں۔

برائے مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں کوئی حل بتائیں ، میں اپنا دکھ الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی۔ بچوں کی جدائی کے تصور سے خوفزدہ ہوں۔نیز بیان فرمادیں کہ نابالغ بچے شریعت کس کے حوالے کرتی ہے۔

شوہر کا بیان

میں*** ولد*** یہ حلفیہ بیان دیتاہوں کہ میری شادی *** دختر *** سے ستائیس جنوری ۱۹۹۵ کوہوئی تھی۔شادی کے بعد گھر یلو حالات میں لڑائی وغیرہ ہوتی رہیں  اور جس طرح کے ہر گھر میں ہوجاتی ہے۔ تقریبا دو ہزار میں گھر لڑائی وغیرہ ہوئی جس میں میرے منہ سے  ایک دفعہ طلا ق کے الفاظ نکلے ۔ لیکن یہ صرف اس طرح ادا کیے تھے جس طرح گالی دی جاتی ہے نہ ہی میری کوئی ایسی نیت نہ ہی میں ایسا کرنے چاہتاتھا ۔ اوریہ الفاظ غصے میں جب بندے کو اپنے پر اخیتار نہیں ہوتا۔  اس صورت میں  جب اس کی ادائیگی کی کوئی سمجھ نہ تھی۔ اس طرح  دوسری دفعہ بھی انہی حالات میں ایسا ہواہے ۔ تیسری دفعہ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا جس کے معنی میں طلاق  کو استعمال کرنے کا مفہوم ہو۔نہ ہی میں اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتاہوں ، اور نہ ہی میری ایسی کوئی نیت ہے۔ کیونکہ اگر میں ایسا کرناچاہتا تو میں اس کو اس طرح لکھتا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتاہوں ۔ مگر ایسا کچھ نہیں میں زرینہ کو بیوی رکھنا چاہتاہوں۔ براہ مہربانی رہنمائی فرمایئں۔ شکریہ

نیز یہ حقیقت ہے کہ میں نے تیسری دفعہ بالکل یہ الفاظ ادا نہیں کیے  یہ حلفیہ کہتاہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ عورت تین طلاقیں سننے کا دعوی کررہی ہے اور شوہر تیسری طلاق کا انکار کررہا ہے لہذا ایسی صورت میں عورت اپنے حق میں تین طلاقیں ہی سمجھے اور شوہر سے علیحدہ رہے اور شوہر کو کچھ دے دلا کر اعلانیہ تیسری بھی لینے کی کوشش کرے۔

 المرأة كالقاضي إذا سمعه أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.(شامی4/ 449)۔  فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved