• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

"تم بس چلی جاؤ ،فارغ ہو تم” اور یمین فور

استفتاء

میں (***) اپنے والد صاحب کے ساتھ ناراضگی کی وجہ سے اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر قریب میں ہی اپنے بڑے بھائی***کے گھر چلا گیا۔ وہاں میری بہن بھی آگئیں اور بھائی بھی تھے ان لوگوں نے کہا کہ واپس ابو کے گھر چلو، ہم صلح کروا دیتے ہیں۔ اس دوران بیوی بھی کہنے لگی: چلو چلتے ہیں، ابو مان جائیں گے۔ اس پر میں نے یہ کہا:

۱۔ اب اس کو پہلے اپنے والدین کے گھر  جانا ہوگا۔

۲۔ اگر یہ میرے والد کے گھر گئی تو فارغ ہے۔

نوٹ: ان الفاظ سے میری نیت ہمیشہ کے لیے والد کے گھر نہ جانا نہیں تھی۔

 اس کے بعد میں نے اپنی اہلیہ کو غصے میں یہ بھی کہا کہ ” تم بس چلی جاؤ، فارغ ہو تم”۔

براہ کرم: اب یہ بتادیجئے کہ کیا میری بیوی کو طلاق ہوگئی ہے؟ اگر ہوئی ہو تو نئے سرے سے نکاح کا کیا طریقہ ہوگا؟ اور کیامیری اہلیہ کا اب اپنے والدین کے گھر ملتان جانا ضروری ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک طلاق بائنہ ہوگئی ہے۔ جس کی وجہ سے نکاح ختم ہوگیا  ہے۔اگر میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو نئے مہرکے ساتھ نئے سرے سے نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔ آئندہ کے لیے خاوند کے پاس صرف دو طلاقوں کا حق باقی رہ جائے گا۔

نکاح کی تجدید کا طریقہ زبانی سمجھ لیا جائے۔

توجیہ: سوال میں تعلیق کا جملہ” یمین علے الفور " ہے جو اسی صورت حال کے ساتھ خا ص ہے۔

في الرد: سئل السغدي: بما ذا يقدر الفور؟ قال: بساعة…إلى…. هذا إذا لم تكن له نية فإن نوى شيئا عمل به.(3/ 762 )

بعد کے الفاظ” تم بس چلی جاؤ، فارغ ہو تم” سے ایک طلاق بائنہ ہوئی ہے۔ کیونکہ ثانی الذکر کنایہ کی قسم ثالث ہے جو عند الغضب نیت کی محتاج نہیں ہوتی۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved