• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

آغا خان فاؤنڈیشن

استفتاء

آغا خان فاؤنڈیشن کے بارے میں پاکستان کے تمام مشہور و معروف مدارس (سمیت دار العلوم دیوبند) کے دار الافتاء سے حرمت کے فتوے جاری ہو چکے ہیں۔ لیکن ان فتاویٰ میں مستفتی کے سوالات صرف آغا خان فاؤنڈیشن اور آغا خانی عزائم کے بارے میں اور ان کے پروگرام کے متعلق تھے۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کے بارے میں مزید تبدیلیاں اور مسائل سامنے آتے گئے، من جملہ ان تبدیلیوں میں سے ایک یہ کہ دیگر غیر مسلم ممالک یعنی (یورپ، برطانیہ، امریکہ، فرانس وغیرہ) بھی آغا خان فاؤنڈیشن کو فنڈز مہیا کرتے ہیں اور پاکستان کے اندر قائم دیگر این جی اوز بھی مثلاً پی، پی۔ اے، ایف وغیرہ بھی آغا خان فاؤنڈیشن کو فنڈز مہیا کرتے ہیں اور کر رہے ہیں، اور اس فنڈز کے ذریعے ضلع چترال اور شمالی علاقہ جات میں ترقیاتی کام یعنی (سڑک، ٹینکی، واٹر سپلائی و دیگر رفاہی کام) کرواتے ہیں، پاکستان کے مختلف علاقوں میں اور چترال میں خصوصاً آغا خان فاؤنڈیشن اور اس کے ذیلی ادارے (ہیلتھ، تعلیم، ہاؤسنگ بورڈ وغیرہ) و دیگر ادارے بہت سر گرم اور تیزی کے ساتھ کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مختصر یہ کہ جتنے بھی فنڈز ہیں چاہے وہ بیرونی غیر مسلم ممالک کی طرف سے ہوں یا حکومت پاکستان کے ہوں یا پاکستان کے اندر آزاد اداروں کے ہوں یعنی این جی اوز کے وہ سب آغا خان فاؤنڈیشن یا اس کے ذیلی اداروں کے ذریعے خرچ کرتے ہیں۔

اس مختصر تفصیل کے بعد درج ذیل چند باتوں کی قرآن و سنت ازروئے شرع راہنمائی چاہتے ہیں:

1۔ کیا آغا خان فاؤنڈیشن کو یورپ، مغربی یا دیگر یہود و نصاریٰ کی کوئی تنظیم یا مسلم ممالک میں سے کوئی ملک یا خود پاکستان کے قومی خزانے سے ان کو فنڈز فراہم کرے، عموما 93% فنڈز دیگر ممالک کا ہوتا ہے۔ صرف 7% فنڈ آغا خان فاؤنڈیشن کا ہوتا ہے، بسا اوقات کل رقم فاؤنڈیشن کی طرف سے بھی ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال میں مسلمانوں کو آغا خان فاؤنڈیشن سے امداد حاصل کرنا اور اس کے لیے بنائی گئی کسی تنظیم کا ممبر بننا اور اس کے فنڈز سے واٹر سپلائی وغیرہ میں تعاون حاصل کرنا از روئے شرع جائز ہو گا یا نہیں؟

2۔آغا خانیوں کا کفر تو واضح ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں، چونکہ آغا خانی لوگ زکوٰۃ، نذر وغیرہ سب آغا خان کے نام آغا خان ہی کو دیتے ہیں، یہ سب کچھ جمع ہو کر آغا خان کے پاس پہنچتا ہے۔ پھر وہاں سے تعاون کی شکل میں واپس آتا ہے، جیسے عرض کیا کہ  93% دیگر ممالک کا ہوتا ہے صرف 7% تعاون آغا خان کا ہوتا ہے، چاہے وہ رقم کی صورت میں ہو یا ٹیکنیکل سپورٹ کی صورت میں۔

کیا 7% کی وجہ سے باقی ماندہ 93% دیگر کا تعاون حلال رہے گا یا حرام ہو گا؟ جبکہ تنظیم سازی، قواعد و ضوابط، تنظیمی فارم جس کو پُر کرنا لازمی ہے اور طریقہ کار اور تشہیر وغیرہ سب آغا خان فاؤنڈیشن کی ہے۔

3۔ لوگ اپنی حکومت سے اور اپنے ممبروں سے مایوس ہو کر آغا خان فاؤنڈیشن کی طرف رخ کرتے ہیں اور اپنی ضرورت یعنی واٹر سپلائی وغیرہ کا کام کرواتے ہیں۔ علماء کرام کے منع کرنے پر وہ لوگ (تنظیم والے) کہتے ہیں کہ پاکستان غربت کا مکاؤ پروگرام میں پاکستان کا اپنا پیسہ ہے۔

ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ اس فنڈ کو استعمال کر سکتے ہیں کہ نہیں؟

4۔ نا جائز ہونے کی صورت میں اگر تنظیم والے زبردستی فنڈز کو استعمال کرتے ہیں اور پائپ لان بچھاتے ہیں، تو کیا اس پانی سے وضو کرنا، پینا دیگر مقاصد میں استعمال کرنا جائز ہو گا کہ نہیں؟ جبکہ پانی سب کی مشترکہ ملکیت ہو اور جگہ بھی (جہاں ٹینکی وغیرہ بناتے ہیں وہ جگہ سب کی مشترکہ ہو)۔ اس سلسلے میں شریعت کی رو سے رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت مطلوب ہے: آغا خان اس قسم کے کاموں سے اپنے دین کو پھیلانے کا کام کس طرح کرتے ہیں؟ اور ان کاموں کے اثراث کیا پڑے ہیں؟

جواب: بظاہر دین پھیلانے کا کوئی خاص کام نہیں ہے اور ان کے دین پھیلانے کے اثرات بھی کچھ نظر نہیں آتے، صرف رفاہی کام احسن طریقے سے کرواتے ہیں، کوئی مذہب کے بارے میں کوئی شرائط وغیرہ نہیں ہے۔ آج تک کوئی بھی فرد ان کے کاموں سے متاثر ہو کر آغا خان نہیں ہوا بلکہ آئے روز آغا خانیوں میں سے مسلمان ہوتے ہیں۔ الحمد للہ

اور قابل غور بات یہ ہے کہ سوسائٹی میں سب کے سب مسلمان ہیں کوئی آغا خانی نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر اب یا آئندہ اپنے دین پر شمولیت سے کچھ برا اثر نہیں پڑے گا تو شمولیت کر سکتے ہیں، اگر شمولیت نہیں کی اور تنظیم نے پانی کا کوئی نظام جاری کیا تو اس سے فائدہ اٹھانا منع نہیں ہے جبکہ دین پر بُرا اثر نہ پڑتا ہو۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved