• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

"جا تو فارغ ہے”، "چل نکل یہاں سے ورنہ اٹھا کے باہر پھینکوں، دفع ہو جا، جا کر اپنی جگہ سوو”

استفتاء

ایک شخص نے اپنی بیوی سے نہایت غصے کے عالم  میں کہا” جا تو فارغ ہے” پھر تھوڑی دیر بعد کہا چل یہاں سے ورنہ اٹھا کے باہر پھینکوں، دفع ہو جا ، جا کراپنی جگہ سوو”۔ اب مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ ایسا کہنے سے  کیا طلاق  بائنہ واقع ہو جائی گی یا نہیں؟ جب کہ وہ شخص پوری ایمانداری سے کہتا ہے کہ اس میں اس کی طلاق دینے کی قطعاً کوئی نیت نہیں تھی، اور اسے یہ مسئلہ بھی معلوم نہیں کہ ان الفاظ سے طلاق واقع ہوتی ہے۔ بقول اس کے میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ مجھے اب تیرے سےکوئی کام نہیں، کوئی نفع نہیں اٹھانا، جا تو اس چیز سے میری طرف سے فارغ ہے۔ اور چل نکل یہاں سے اور دفع ہو جا کے الفاظ وہ اسے اپنی نظروں سے اس وقت دور کرنے کے لیے کہنا چاہتا تھا۔ اور زبان سے بھی کہا کہ  اس وقت میری نظروں سے ہٹ اور اپنے بستر پر جاکر سو جا۔ مزید یہ کہ اگر طلاق بائنہ واقع ہونگی تو کتنی واقع ہونگی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں سائل کے اس کہنے سے کہ ” جا تو فارغ ہے” عورت کو ایک طلاق بائن واقع ہوگئی اور نکاح ختم ہوگیا۔ میاں بیوی چاہیں تو دوبارہ نکاح کر کے آپسمیں رہ  سکتے ہیں، کیونکہ ” تو فارغ ہے” الفاظ کنایات میں سے تیسری قسم ہے جن سے غصے کی حالت میں بغیر نیت کے بھی قضاء طلاق واقع ہوجاتی ہے اور ” المرأة کالقاضی” اپنی جگہ مسلم ہے۔

في الدر المختار: و في الغضب توقف الأولان إن نوى وقع و إلا لا ( قوله: توقف الأولان )… ولا يتوقف ما يتعين للجواب. ( 3/ 301 )۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved