• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شاہ صاحب سے متعلق علامہ کوثری کے چند اشکالات

استفتاء

علامہ زاہد الکوثری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب  ’’حسن التقاضی‘‘ کے آخر میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے بارے میں چار پانچ صفحات سپرد قلم کیے ہیں جن میں شاہ صاحب رحمہ اللہ کی علمی و فکری حیثیت پر متعدد اعتراضات وارد کیے ہیں۔ حال ہی میں چھپ کر آنے والی کتاب ’’رسائل الکوثري رحمه الله إلیٰ العلامة محمد یوسف البنوري رحمه الله‘‘ میں بھی بطور ضمیمہ یہ صفحات الگ سے شامل کیے گئے ہیں یہ کتاب یہاں دار الافتاء میں موجود ہے۔ ان صفحات کا خلاصہ ’’مقالات الکوثری: ص: 314 ‘‘ کے حاشیے میں بھی موجود ہے۔ جو ذیل میں درج ہے:

والجمور على أن الإسراء والمعراج في ليلة واحدة وأنهما بالروح والجسد معاً يقظة ولا محيد عن ذلك بعد صحة الخبر وتمام الاعتقاد بقدرة القادر الحكيم الشاملة لكل ممكن وردُّ ذلك كله إلى عالم المثال الذي يتخيله صاحب ((حجة الله البالغة)) (1) على عادته في المشاكل خروجٌ عن الجادة بدون أي حجة ناهضة.

(1) هو الشيخ ولي الله أحمد بن عبد الرحيم الدهلوي رحمه الله. له خدمة مشكورة في إنهاض علم السنة بالهند. وكان يعني بمتون الأصول الستة من غير نظر في أسانيدها. ولكتبه روعة وفيها فوائد، بيد أن له فيها انفرادات لا تصح متابعته فيها لما عنده من اضطراب فكري، مع قلة اطلاع على كتب المتقدمين، وقلة دراسة لأحوال الرجال وتاريخ العلوم والمذاهب. فمن إغراباته حمله لمشكلات الآثار على وجوه مبنية على تخيل عالم يسميه عالم المثال تتجسد فيه المعاني. وهذا العالم خيال لأن حمل الشيء على ما لا يفهمه أهل التخاطب في الصدر الأول هو محض خيال وضلال. فلا يبقى مجال لحل المشكلات غير النظر في الأسانيد ورجالها وفي وجوه الدلالة المعتبرة عند الأئمة. ومنها عده انشقاق القمر عبارة عن ترائيه كذلك للأنظار مع أن سحر الأعين ليس من شأن رسل الله عليهم الصلاة والسلام. ومنها إذاعته القول بالتجلي في الصور والظهور في المظاهر مع أن هذا وذاك من باب القول بالحلول. ومنها اختياره لقدم العالم، وهذا داهية الدواهي. وكان يرى أن الإمام الأعظم المتقدم القريب من النبع الصافي كدر الروايات. ثم جنح بأخره عن الجموح بمبشرة رآها في المدينة المنورة حيث قال في ((فيوض الحرمين: 48)) عرفني رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن في المذهب الحنفي طريقة أنيقة هي أوفق الطرق بالسنة المعروفة التي جمعت ونقحت في زمان البخاري وأصحابه، وأورد نحو ذلك في كتابه ((التفهيمات الإلهية)).

فخاب بذلك من يسعى في هدم المذهب بمعاوله في (الإنصاف) و (عقد الجيد) و (حجة الله البالغة) وغيرها. انتهى من (حسن التقاضي في سيرة أبي يوسف القاضي للعلامة الكوثري) (وفيض الباري للعلامة محمد انور الكشميري). (بحواله: مقالات الكوثري: مقالة المعراج).

حضرت والا  کی نظر سے غالباً یہ پہلے بھی گذری ہو گی سوال یہ ہے کہ حضرت والا کی علامہ کوثری کے نقد کی بابت کیا رائے ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ عالم مثال کا اثبات: شاہ صاحب رحمہ اللہ نے بہت سی نصوص پر اس کا اثبات کیا ہے اور وہ سب کی سب ضعیف نہیں ہیں اور نہ ہی عالم مثال کے اثبات کے خلاف کوئی نص موجود ہے اور نہ ہی اس کے عدم ثبوت پر اجماع ہے۔ اس کو تسلیم کرنے میں بہت سی نصوص کو ہم حقیقی معنیٰ پر محمول کر سکتے ہیں تاویل کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ کہنا کہ  ’’ وهذا العالم خيال لأن حمل الشيء على ما لا يفهمه أهل التخاطب في الصدر الأول هو محض خيال وضلال ‘‘ درست نہیں۔

2۔  تجلی الہٰی کو حلول پر مشتمل سمجھنا درست نہیں ہے اور نہ ہی شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس کا قول کیا ہے۔ شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے عبقات میں اس بات کو خوب کھولا ہے اور تجلی کی جو تعریف کی ہے وہ اس سے بہت مختلف ہے جو علامہ کوثری رحمہ اللہ نے سمجھی ہے۔ یہ حضرات تو حلول کی نفی کی تصریح کرتے ہیں۔

3۔ ممکن ہے کہ شاہ صاحب رحمہ اللہ کی پہلے یہ رائے ہو کہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کدر الروایات ہیں اور اس وجہ سے فقہ حنفی سے عدول کی طرف طبیعت مائل ہو لیکن جب خواب میں بتایا گیا کہ فقہ حنفی کو ترجیح حاصل ہے اور آئندہ آنے والے دور میں صاحبان عقل و دانش ہر چیز کو عقل پر پرکھیں گے تو ان کا اصل مقابلہ فقہ حنفی ہی کر سکے گی جو اقرب الیٰ العقل ہے تو اس رائے سے رجوع کر لیا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ ہمارے دور میں تلفیق میں آسانی دیکھ کر اس کو اختیار کیا جاتا ہے لیکن اگر مغربی معاشیات کا مقابلہ کیا جائے تو فقہ حنفی اس کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ و اللہ اعلم

نوٹ: 4۔ شق قمر کو سحر اعین پر محمول کرنا۔

3۔ قدم عالم کے مسئلے کو۔

6۔ معراج کو صرف روحانی کہنا

ان  تینوں باتوں کی تحقیق کی جائے کہ حضرت شاہ صاحب نے کہاں لکھا ہے۔

اصل عبارات وغیرہ آنے کے بعد ہی اس بارے میں کچھ کہا جا سکتا ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved