• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد میں مانگنا اور چندے وغیرہ کی اپیل کرنا

  • فتوی نمبر: 1-366
  • تاریخ: 28 مئی 2008

استفتاء

ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے وہ یہ ہے کہ آج کل یہ رواج عام ہوگیا ہے کہ مساجد میں نمازوں کے بعد چندہ کی اپیل کی جاتی ہے اور بعض اوقات اپنی ذات کے لیے سوال کیا جاتا ہے اور بعض اوقات مساجد اور مدارس کے لیے بھی سوال کیا جاتا ہے۔ تو کیا اس طرح سوال کرنا مسجد کے اندر جائز ہے؟

وضاحت مطلوب ہے: (۱)کس قسم کے چندہ کی اپیل کی جا سکتی ہے؟ مدارس کے لیے چندہ کرنے کے بارے میں کیا اشکال ہے؟  (۲) اپنی ذات کے لیے کرنے والوں سےکون مراد ہیں؟

جواب: (۱)مثلاً یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ طلباء کے لیے کھانے وغیرہ کی اشیاء ختم ہوچکی ہیں ان کے لیے راشن وغیرہ کی مثلا 50 من گندم چاہیے۔ (۲) میرا گھوڑا یا گدھا مرگیا ہے۔ میرے پاس اس کے سوا کوئی اور سبب نہیں ہے کہ کما کر بچوں، بی بی کو کھلا سکوں۔ اللہ جل شانہ کے گھر آکر پھر سوال غیر اللہ سے کیا جائے۔ (۳) یا اسی طرح علاج و معالجے کے لیے معذور آدمی ہے کما نہیں سکتا اپنے تعاون کی اپیل کرتا ہے نمازیوں سے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ دینی مدارس یا دینی امور کے لیے مسجد میں چندہ کا سوال کرنا جائز ہے۔

2۔ جو شخص کمانے سے عاجز ہو اس کے لیے بھی مسجد میں چندہ کا سوال کرنا جائز ہے بشرطیکہ یہ دونوں قسم کے لوگ نمازیوں کی گردنوں کو نہ پھلانگیں۔ بہتر یہ ہے کہ اپنی ذات کے لیے مانگنے والا مسجد سے باہر دروازے پر مانگے۔

و يلزم العاجز عن الكسب سؤاله من الناس فإنه كسب مثله … و يكره إعطاء السائل في المسجد إلا إذا لم يتخط رقاب الناس و لم يمش بين يدي المصلى في القول المختار فقد روي أنهم كانو يسألون في المساجد على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم حتى أن علياً رضي الله عنه تصدق … في الصلاة فمدحه الله تعالى إنما وليكم الله… ( شرح النقایہ3/ 34) فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved