• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دوسال میں دوسو روزے رکھنے کی منت ماننےکاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب !ایک عورت نے منت مانی تھی کہ اگر میرے گھر میں بیٹا پیداہواتومیں دوسال کے عرصے میں 200روزے رکھوں گی ۔بیٹا پیداہوگیا ہے۔ اب بیٹے کوتقریباسواسال ہوگیاہے۔ دوسرا سال بھی ختم ہونے والاہے۔

لیکن اب تک 20روزے رکھ چکی ہے باقی کاکفارہ دیناچاہتی ہے کیسےکفارہ آیئگا(کتنا کفارہ آیئگا) ؟

وضاحت مطلوب: روزے پورے نہ رکھ سکنے کا عذر کیا تھا ؟اب اگر یہ تعداد پوری کرنا چاہتی ہےتو کیا رکاوٹ ہے؟ مسلسل روزے رکھنے کی نیت تھی یا نہیں ؟

جواب وضاحت:دن تھوڑے ہیں،مسلسل روزے رکھنا ان کے لئے ممکن نہیں ہے،تین چھوٹے بچے ہیں ان کے،اس لئے کفارے کا پوچھا ہے؟  مسلسل وغیرہ کی کچھ نیت نہیں تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو سال کے عرصہ  میں جتنے روزے رکھے جاسکتے ہیں وہ رکھ لیں  جوباقی  رہ جائیں ان کی قضا کریں۔مذکورہ صورت میں روزےمسلسل رکھنا ضروری نہیں  ۔جب تک روزہ رکھنےکی طاقت ہےتب تک روزہ رکھنا  ہی واجب ہے اگرچہ  دو سال سے زیادہ عرصہ گزر جائے  ۔استطاعت  کے ہوتے ہوئے فدیہ  دینا جائز نہیں۔

الدرالمختار(3/489) میں ہے:

نذر صوم رجب فدخل وهو مريض أفطر وقضى كرمضان

الدرالمختار(3/486) میں ہے:

 (قوله متتابعا) أفاد لزوم التتابع إن صرح به وكذا إذا نواه، أما إذا لم يذكره ولم ينوه إن شاء تابع وإن شاء فرق.

فتاوی ہندیہ(1/463) میں ہے:

إذا نذر أن يصوم كل خميس يأتي عليه فأفطر خميسا واحدا فعليه قضاؤه كذا في المحيط.

ولو أخر القضاء حتى صار شيخا فانيا أو كان النذر بصيام الأبد فعجز لذلك أو باشتغاله بالمعيشة لكون صناعته شاقة فله أن يفطر ويطعم لكل يوم مسكينا الخ

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved