• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مضاربت کی ایک صورت

  • فتوی نمبر: 18-371
  • تاریخ: 21 مئی 2024

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں  کہ ایک دوست نے دوسرے دوست سے کاروبار میں لگانے کے لیے 16 لاکھ روپے آدھے آدھے نفع کی بنیاد پر لئے، جس میں سے 11لاکھ  کی رقم پہلے وصول کرکے اس کی ایک گاڑی خریدی گئی اور تقریبا ایک ماہ بعد 5لاکھ کی مزید رقم اس پہلے والے سے وصول کرکے دوسرے دوست نے اپنے ایک تیسرے دوست کو( جس کا جوتوں اور کپڑوں کا کام تھا) دے دی ۔اور اس پہلے شخص کو پہلے ہی  بتادیا کہ یہ رقم کہاں اور کس کے پاس جا رہی ہے ۔نفع آدھے آدھے کی بنیاد پر تھا اور بعد میں دوسرے نے اس پہلے دوست کو تیسرے سے جس کو 5 لاکھ دیے تھے ملو ا بھی دیا۔ 11 لاکھ کی گاڑی 12 لاکھ میں بکی اور 50، 50 ہزار دونوں میں تقسیم ہوگئے۔ پھر ان پیسوں سے ایک اور گاڑی خریدی گئی جس میں دوسرے شخص کے ذاتی 80000 بھی مرمت پر خرچ ہوئے مگر اس گاڑی میں دو لاکھ کا نقصان ہوا ۔ 5لاکھ جس کاروبار میں لگے اس سے برابر6 سے7ماہ نفع ،10سے 20ہزار آتا رہا جو دوسرا شخص تیسرے سے وصول کرکے آدھا خود رکھتا اور آدھا پہلے والے کو دیتا ۔پھر نفع آنا بند ہوگیا اور پہلے والے نے رقم کی واپسی کا تقاضا دوسرے سے شروع کر دیا اور دوسرے  نےتیسرے سے۔

اسی دوران تیسرا شخص اپنی فیملی کے ساتھ کسی اور شہر منتقل ہوگیا اور اب اس تیسرے سے رقم کی واپسی کی کوئی صورت بظاہر نظر نہیں آتی۔ اب پہلا شخص دوسرے سے اپنی پوری ادا کی گئی رقم کا مطالبہ کر رہا ہے دوسرا شخص پہلے والے کو دس لاکھ واپس لوٹا چکا ہے آپ حضرات اس مسئلے کی شرعی حیثیت بتا دیں اور اس نقصان میں یہ دوسرا شخص کس حد تک ذمہ دار ہے یہ بھی واضح کر دیں شکریہ

نوٹ :اس پورے معاملے کا کوئی تحریری ثبوت یا دستاویز نہیں ہے معاملات صرف زبانی ہوتے رہے ہیں جو کچھ بھی ہے اب یہی ہے ۔

یہ تیسرا شخص دوسرے شخص کا محلہ دار تھا اور کرایہ پر اسی کے محلے میں رہتا تھا اور ان کی جماعت کا ساتھی بھی بن گیا تھا۔

دو سال محلہ میں رہنے اور کاروبار کرنے کے بعد اس تیسرے شخص نے دوسرے سے کچھ پیسے مانگے۔

تیسرے شخص  کا جوتوں اور کپڑوں کا کاروبار تھااور  یہ تیسرا شخص پشاور کا رہنے والا تھا ۔چار ماہ لگے ہوئے اور محلے کی جماعت میں جڑتا تھا۔

پانچ لاکھ جو دوسرے نے تیسرے کو دیے تو پہلے والے کو یہ بتایا کہ تیسرا شخص جاننے والا ہے   کوئی فکر کی بات نہیں ہے، میں ذمہ دار ہوں ۔اب یہ تیسرا شخص  شہر چھوڑ کر ایک دم نہیں گیا بلکہ 6سے 7  ماہ بعد کاروبار میں نقصان اٹھانے کے بعدگیاہے۔ اس شخص کے جانے کے بعد اس کے غلط بیانات سامنے آئے،اس وجہ سے اس کی دیانت پر بھروسہ نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دوسرے فریق نے پانچ لاکھ روپے جس تیسرے فریق کو دیے وہ دوسرے فریق کے محلے کا لوکل (مقامی) رہائشی نہیں تھا، اور کرائے پر رہتے ہوئے بھی اسے صرف دو سال ہوئے تھے۔ لہذا  ایسے شخص کو مضاربت پر رقم دینا عرفاً کوتاہی کی بات ہے۔ پہلا فریق بھی دوسرے کی ذمہ داری کے بعد اس تیسرے فریق کو رقم دینے پر آمادہ ہوا۔ نیز یہ بات بھی کنفرم نہیں کہ تیسرے فریق سے بغیر کوتاہی کے رقم ضائع ہوئی ہو۔ لہذا دوسرا فریق پہلے فریق کو پوری رقم دینے کا ذمہ دار ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved