- فتوی نمبر: 9-228
- تاریخ: 22 مئی 2024
استفتاء
مفتی صاحب!
السلام علیکم
میرے ساتھ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ میں نماز کے دوران سجدے سے اٹھنے کے بعد بھول جاتا ہوں کہ میں نے ایک سجدہ کیا یا دو سجدے؟ ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ اپنے غالب گمان پر عمل کریں۔ (1) اگر غالب گمان یہ ہو کہ دو سجدے کیے ہیں تو مزید سجدہ نہ کریں۔ اور اگر غالب گمان یہ ہو کہ ایک سجدہ کیا ہے تو ایک سجدہ اور کر لیں۔ اس صورت میں آخر میں سجدۂ سہو بھی نہ کریں۔ لیکن اگر سوچ وبچار میں اتنا وقت لگ گیا کہ جس میں تین دفعہ سبحان اللہ کہہ سکتے ہوں اور اس دورانیے میں آپ بالکل خاموش رہے ہوں یعنی کوئی تسبیح وغیر نہ پڑھتے رہے ہوں تو پھر آخر میں سجدۂ سہو بھی کریں۔
(2)۔ اور اگر کسی جانب کا بھی غالب گمان نہ ہو تو ایک سجدہ اور کر لیں اور آخر میں سجدہ سہو بھی کریں۔
چنانچہ امداد الفتاویٰ (1/368) میں ہے:
’’سوال: میرے گھر میں نماز میں بھول جانے کی شکایت کرتی ہیں یعنی سجدہ کتنے کیے وغیرہ یاد نہیں رہتے، تو کیا کیا جاوے؟
جواب: جوبات زیادہ آوے اس پر عمل کیا جاوے اور سجدہ سہو نہ کرے، البتہ اگر سوچنے میں کچھ دیر لگ گئی اور اس دیر میں قراءت یا رکن میں مشغول نہ رہی ہو تو سجدہ سہو کرے۔‘‘
فتاویٰ شامی (2/491) میں ہے:
وجب عليه سجود السهو في جميع صور الشك سواء عمل بالتحري أو بنى على الأقل (فتح) لتأخير لكن في السراج أنه يسجد للسهو في أخذ الأقل مطلقاً وفي غلبة الظن أن تفكر قدر ركن.
وفي الشامية: إن منعه التفكر عن القراءة أو عن التسبيح يجب عليه سجود السهو وإلا فلا….. قوله (لكن في السراج): استدراك عن ما في الفتح من لزوم السجود في الصورتين، هو الظاهر لأن غلبة الظن بمنزلة اليقين، فإذا تحرى غلب على ظنه شيء لزمه الأخذ به، ولا يظهر وجه لإيجاب السجود عليه إلا إذا طال تفكره.
© Copyright 2024, All Rights Reserved