• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تھکاوٹ یا وزن کی وجہ سے قعدہ سے اٹھتے ہوئے ’’اُہ‘‘ کی آواز کی وجہ سے نماز کا حکم

  • فتوی نمبر: 9-244
  • تاریخ: 21 فروری 2016

استفتاء

قعدہ سے اٹھتے ہوئے اگر سینے یا گلے سے بوجہ تھکاوٹ یا وزن کے ’’اُہ‘‘ کی سی آواز نکل آئی تو نماز کا کیا حکم ہے؟ فاسد ہوئی یا باقی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر وزن یا تھکاوٹ کی وجہ سے اس آواز کو روکنا نمازی کے اختیار میں نہیں تھا  تو اس سے نماز فاسد نہ ہو گی۔ ورنہ نماز فاسد ہو گی۔

رد المحتار (2/ 378) میں ہے:

إن كان الأنين مع وجع مما يمكن الامتناع عنه فعن أبي يوسف رحمه الله لا يقطع الصلاة و إن كان مما لا يمكن لا يقطع. و عن محمد رحمه الله إن كان المرض خفيفاً يقطع و إلا فلا لأنه لا يمكنه القعود إلا بالأنين كذا ذكره المحبوبي.

فتح باب العنايہ (1/ 302) میں ہے:

و يفسد (الأنين و نحوه مما له صوت) كالتأوه (و التأفيف و النفخ المسموع، إلا إذا كان مريضاً لا يملك نفسه عن الأنين) لأن أنينه حينئذ كالعطاس و الجشاء إذا حصل بها حروف بهما.

حاشیہ طحطاوی (324) میں ہے:

و يفسدها التنحنح بلا عذر و التأفيف و الأنين و التأوه و ارتفاع بكاءه من وجع أو مصيبة. ومحل الفساد به عند حصول الحروف إذا أمكنه الامتناع عنه، أما إذا لم يمكنه الامتناع عنه فلا تفسد به عند الكل، كما في الظهيرية، كالمريض إذا لم يمكنه منع نفسه عن الأنين والتأوه.

مسائل بہشتی زیور (214) حصہ اول میں ہے:

’’اگر درد یا مصیبت سے نماز میں ’’آہ‘‘ یا ’’اوہ‘‘ یا  ’’اف‘‘ یا ’’ہائے‘‘ کہے، یا زور سے روئے، تو نماز جاتی رہتی ہے۔ البتہ اگر مریض مرض سے بے قابو ہو جائے اور اس سے بے اختیار  ’’آہ‘‘ یا ’’ہائے‘‘ نکل جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی۔

فتاویٰ رحیمیہ (5/115) میں ہے:

’’سوال: نماز میں ایک شخص نے جمائی لی، اور جمائی لیتے وقت آواز نکلے جس سے ایک دو حروف ظاہر ہو جاویں تو اس سے نماز فاسد ہو جائے گی یا نہیں؟

الجواب: مجبوری کی وجہ سے جمائی لی ہو اور احتیاط کرتا ہو کہ آواز نہ نکلے تو معاف ہے، اور اگر اس میں احتیاط نہ کرتا ہو اور بے احتیاطی کی وجہ سے آواز نکلے اور حروف پیدا ہوں تو نماز فاسد ہو جائے گی۔‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved