• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جمعہ فی القریٰ اور مصر جامع کی تعریف

استفتاء

ہمارا گاؤں ***** میں واقع ہے۔ گاؤں میں کل 33 مکان ہیں جس میں ایک جامع مسجد ہے، لہذا یہ ایک پہاڑی اور زرعی علاقہ ہے جو کہ اس کے قریب قریب 10 اور 15 منٹ پیدل مسافت پر مضافاتی علاقہ ہے جس میں کل 80 سے سو مکان موجود ہیں، جس میں افرادی تعداد 150 سے دو سو ہے، گاؤں میں کوئی تھانہ اور چوکی نہیں ہے، جبکہ پانچ کلومیٹر کی دوری پر ایک پولیس چوکی موجود ہے، ضروریات زندگی کی تمام سہولیات موجود ہیں، ٹریفک کی آمد و رفت کے لیے سڑک موجود ہے جس پر 24 گھنٹے گاڑیوں کا آمد و رفت ہوتا ہے، ہمارے گاؤں سے شہر تقریباً 14 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

ہمارے ہاں نماز جمعہ نہیں ہوتا، اس لیے نماز جمعہ کے اہم فریضہ کی ادائیگی سے ہم محروم ہو رہے ہیں، اس کے علاوہ بھی دو گاؤں جو کہ 15 منٹ کے پیدل فاصلے پر موجود ہیں جس میں کل افراد کی تعداد 150 سے دو سو ہے، لہذا نماز جمعہ پڑھنے کے لیے قرآن و حدیث اور شریعت کے اصول ہمارے لیے بیان کیے جائیں تاکہ ہم نماز جمعہ کی ادائیگی کر سکیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

فقہائے احناف کے نزدیک نماز جمعہ کے واجب اور صحیح ہونے کے لیے منجملہ دیگر شرائط کے ایک شرط اس جگہ کا شہر یا بڑا گاؤں (قصبہ) ہونا ہے۔ چھوٹے گاؤں میں جمعہ جائز نہیں۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ امام بخاری اپنی صحیح میں یہ روایت لائے ہیں:

 "کان الناس ینتابون و فی رواية یتناوبون الجمعة من منازلهم و العوالي فيأتون في الغبار… (إعلاء السنن: 8/ 17)

اس حديث شریف میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نماز جمعہ کے واسطے نوبت بہ نوبت (باری باری) آنا ثابت ہوا جس سے صاف ظاہر ہے کہ گاؤں والوں پر جمعہ واجب نہیں ہے اور نہ گاؤں میں جمعہ ادا ہوتا ہے ورنہ وہ لوگ جو عوالی رہتے تھے ان کو وہیں اداءِ جمعہ کا حکم ہوتا یا ان سب کو مدینہ منورہ آنا واجب ہوتا، حالانکہ عوالی میں حضرت محمد ﷺ کے زمانہ میں کسی جگہ کسی وقت میں کہیں جمعہ ہونا ثابت نہیں ہے۔ (فتاویٰ مظاہر علوم المعروف بہ فتاویٰ خلیلہ: 120)

دوسری دلیل یہ ہے:

عن علي كرم الله وجهه أنه قال لا جمعة و لا تشريق إلا في مصر جامع. أخرجه أبو عبيد بإسناد صحيح إليه موقوفاً. (إعلاء السنن: 8/ 3)

إن الموقوف في مثله مرفوعا حكماً. (إعلاء السنن: 8/ 6، باب عدم جواز الجمعة في القری)

بدائع الصنائع میں ہے:

أما المصر الجامع: فشرط وجوب الجمعة و شرط صحة ادائها عند أصحابنا حتی لا تجب الجمعة إلا علی أهل المصر و من كان ساكناً في توابعه و كذا لا يصح اداء الجمعة إلا في المصر و توابعه فلا تجب علی أهل القری التي ليست من توابع المصر و لا يصح أداء الجمعة فيها. (1/ 583)

البتہ "المصر الجامع” شہر اور قصبے کی تعریف و تعیین میں فقہائے حنفیہ کے تقریباً 9 اقوال ہیں جیسا کہ ان کی تفصیل بدائع الصنائع (1/ 584) میں موجود ہے۔ ان اقوال میں دو قولوں کو راجح قرار دیا گیا ہے، ان میں سے پہلا قول وہ ہے جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مروی ہے:

و روي عن أبي حنيفة رحمه الله أنه بلدة كبيرة فيها سكك و أسواق و لها رساتيق و فيها والٍ يقدر علی إنصاف المظلوم من الظالم بحكمه و علمه أو علم غيره و الناس يرجعون إليه في الحوادث و هو الأصح. (بدائع الصنائع: 1/ 585)

اور دوسرا قول یہ ہے:

المصر و هو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها و عليه الفتوی أكثر الفقهاء مجتبی. (رد المحتار: 3/6)

یعنی شہر اور بڑی بستی وہ جگہ ہے کہ جس کی سب سے بڑی مسجد میں اس جگہ کے تمام مکلفین (یعنی جن پر جمعہ فرض ہے) پورے نہ آسکیں۔ اکثر فقہاء کے ہاں اس پر فتویٰ ہے۔

اگر یہ دوسرے قول والی مذکورہ تعریف کسی بستی پر منطبق ہوتی ہے تو اس بستی میں نماز جمعہ کی گنجائش ہے جیسا کہ "کفایت المفتی” میں بھی یہی تحریر ہے:

"قریہ کبیرہ (بڑی بستی) جس پر مصر کی کوئی بھی تعریف صادق آ جائے مثلاً  "ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها” اس میں اقامت جمعہ جائز ہے۔” (کفایت المفتی: 3/ 241)

مگر یہ تعریف آپ کے گاؤں پر منطبق نہیں ہوتی کیونکہ مذکورہ تعریف کا حاصل یہ ہے کہ وہاں بہت سے مساجد ہوں اور ان میں سب سے بڑی مسجد کی یہ شان ہو اورظاہر ہے کہ یہ بات شہروں اور بڑی بستیوں میں ہوا کرتی ہے جبکہ آپ کے گاؤں میں ایک ہی مسجد ہے۔ پھر آپ کے بقول گاؤں کی آبادی 120 یا 130 بالغ افراد ہیں، آپ کے بقول تمام بالغ افراد مسجد کی پہلی دو تین صفوں میں آ جائیں گے اور باقی مسجد خالی رہے گی، جبکہ فتاویٰ دار العلوم دیوبند (5/ 132) میں ہے:

"چھوٹے گاؤں میں جس کی آبادی ایک دو ہزار آدمیوں کی بھی نہ ہو عند الحنفیہ جمعہ جائز نہیں ہے۔”

تھانہ، چوکی، ڈاک خانہ بھی نہیں ہے جو بڑا گاؤں ہونے پر دلالت کریں، ارد گرد کی جن بستیوں کا آپ نے تذکرہ کیا ہے وہ بھی علیحدہ علیحدہ گاؤں شمار ہوتے ہیں، وہ بستیاں آپ کے گاؤں کے لیے محلوں اور گلیوں کی حیثیت نہیں رکھتے۔ غرض آپ کے بیان  کیے ہوئے حالات کے پیشِ نظر عرفا آپ کی بستی کو بڑا گاؤں نہیں کہہ سکتے، جبکہ مصر جامع کی تعریف کا اصل مدار عرف ہی پر ہے جیسا کہ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

"والحاصل أن تفسير المصر محول علی العرف و اللغة.” (فتاوی دار العلوم ديوبند: 5/ 51)

لہذا آپ کے گاؤں میں نماز جمعہ جائز نہیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved