• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیا آپﷺ نے اللہ کا دیدار کیا ہے

استفتاء

میرا آپ سے سوال ہے کہ معراج کے موقع پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا یا نہیں؟ حوالہ دے کر میرے قلب مضطرب کو جلا بخشیں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اس مسئلہ کے متعلق احادیث میں بھی اختلاف ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین میں بھی اختلاف رہا ہےچنانچہ مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے’’نور انى اراه ‘‘’’وہ  یعنی اللہ تعالی تونور ہیں میں ان کو کیسے دیکھ سکتا ہوں  ‘‘جبکہ مسلم شریف ہی کی دوسری حدیث میں ہے’’رأىت نورا ‘‘میں نے نور دیکھا اور دونوں حدیثوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے والے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اسی طرح صحابہ میں سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما رویت کے قائل تھے جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اس کا انکار فرماتی تھیں۔

اس اختلاف روایات کی وجہ سے محدثین کی آراء میں بھی اختلاف ہوا۔ چنانچہ بعض محدثین نے توقف کوترجیح دی ہے جبکہ دوسرے حضرات نے دونوں میں تطبیق دی ہے کہ جہاں رویت کی نفی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ آنکھ سے نہیں دیکھا اور جہاں اس  کااثبات ہے اس سے مراد یہ ہے کہ دل سے دیکھا ہے لیکن دل سے دیکھنے سے مراد محض علم نہیں بلکہ جیسے بندہ آنکھ سے دیکھتا ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل سے اللہ تعالی کو دیکھا ہے۔

چنانچہ فتح الملہم2/194-195میں ہے:

قال الحافظ ابن حجراختلف السلف في رؤية النبي ﷺ ربه فذهبت عائشة وابن مسعود الي انکارها واختلف عن ابي ذر وذهب جماعة الي اثباتها وحکي عبدالرزاق عن معمرعن الحسن انه حلف ان محمدا رأي ربه واخرج ابن خزيمة عن عروة بن الزبير اثباتها وکان يشتد عليه اذا ذکر له انکار عائشة وبه قال سائر اصحاب ابن عباس وجزم به کعب الاحبار والزهري وصاحبه معمرو آخرون وهو قول الاشعري وغالب اتباعه

ثم  اختلفوا هل رآه بعينه او بقلبه ؟وعن احمد کالقولين قلت جاءت عن ابن عباس اخبار مطلقة واخري مقيدة فيجب حمل مطلقها علي مقيدها ومن ذلک ما اخرجه النسائي باسناد صحيح وصححه الحاکم ايضا من طريق عکرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما قال اتعجبون ان تکون الخلة لابراهيم والکلام لموسي والرؤية لمحمد واخرجه ابن خزيمة بلفظ ان الله اصطفي ابراهيم بالخلة الحديث

واخرج ابن اسحاق من طريق عبدالله بن ابي سلمة ان ابن عمر ارسل الي ابن عباس هل رأي محمد ربه فارسل اليه ان نعم

ومنها ما اخرجه مسلم من طريق ابي العالية عن ابن عباس في قوله تعالي ماکذب الفؤادمارأي افتمٰرونه علي ما يريٰ ولقد رءاه نزلة اخري قال رأي ربه بفؤاده مرتين وله من طريق عطاء  عن ابن عباس قال رآه بقلبه

واصرح من ذلک ما اخرجه ابن مردويه من طريق عطاء ايضا عن ابن عباس قال لم يره رسول الله ﷺ بعينه انما رآه بقلبه وعلي هذا فيمکن الجمع بين اثبات ابن عباس ونفي عائشة بان يحمل نفيها علي رؤية البصر واثباته علي رؤية القلب.

ثم المراد برؤية الفؤاد رؤية القلب لامجرد حصول العلم لانه ﷺ کان عالما بالله علي الدوام بل مراد من اثبت له انه رآه بقلبه ان الرؤية التي حصلت له خلقت في قلبه کما يخلق الرؤية بالعين لغيره والرؤية لايشترط لها شيئ مخصوص عقلا ولو جرت العادة بخلقها في العين وروي ابن خزيمة باسناد قوي عن انس قال رأي محمد ربه وعند مسلم من حديث ابي ذر انه سأل النبي ﷺعن ذلک فقال نور اني اراه ولاحمد عنه قال رأيت نورا ولابن خزيمة عنه قال رآه بقلبه ولم يره بعينه وبهذا يتبين مراد ابي ذر بذکره النور اي النور حال بين رؤيته له ببصره وقد رجح القرطبي في المفهم قول الوقف في هذه المسألة وعزاه جماعة من المحققين وقواه بانه ليس في الباب دليل قاطع وغاية ما استدل به للطائفتين ظواهر متعارضة قابلة للتأويل قال وليست المسألة من العمليات فيکتفي فيها بالادلة الظنية وانما هي المعتقدات فلايکتفي فيها الابالدليل القطعي

معارف القرآن از مولانا ادریس کاندھلوی (7/566)میں ہے:

اس روایت کو جبریل علیہ السلام کی رویت پر اور ان ہی کے قرب اورتدلی پر محمول کرنے والے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اورحضرت عائشہؓ ہیں اورابوذر ؓسے’’ فکان قاب قوسین ‘‘کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ یہ قرب جبریل کا تھا اور’’فاوحی الی عبدہ مااوحی ‘‘کے بھی معنی یہ بیان کیے کہ جبریل نے وحی کی اللہ کے بندہ محمد ﷺ کو جوبھی وحی کی۔

حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں (دوسری بار جبریل کو اپنی اصلی صورت پر دیکھا)

لیکن اس کے بالمقابل ایک جماعت صحابہ میں سے اس بات کی قائل  تھی کہ شب معراج میں آنحضرت ﷺ کو رویت خداوندی حاصل ہوتی ہے اوریہ قرب اورتدلی حق تعالی کے قرب اورتدلی پر جیسے بھی اس کے شان کے لائق ہو محمول ہے حضرت عبداللہ بن عباس انس بن مالک اورحسن بصری اسی کےقائل تھے کہ رویت بصریہ ہوئی ہے اوران کے علاوہ صحابہ اورتابعین کے طبقہ میں بھی متعدد حضرات رویت باری تعالی کے قائل تھے عکرمہ سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے لیکن ترمذی میں عکرمہ کی روایت سے اس نسبت میں تردد معلوم ہوتا ہے عکرمہ بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا ’’رای محمدربه‘‘ کہ محمد رسول ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے میں نے عرض کیا کیا حق تعالی کا یہ ارشاد نہیں ہے ’’لاتدرکه الابصار ‘‘کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں فرمایا ’’ویحک ‘‘تجھ پر افسوس یہ تو اس صورت میں کہ حق تعالی متجلی ہو اپنےاس نور کے ساتھ جو اس کانورذاتی ہے اورانحضرت ﷺ نے اپنے رب کو دومرتبہ دیکھا ہے اورعکرمہ نے یہ بھی بیان کیا کہ ابن عباس کی حضرت کعب احبار سے ملاقات ہوئی تو اس ملاقات میں کعب کہنے لگے ’’ان الله تعالی قسم رؤیته وکلامه بین محمد وبین موسی فکلم موسی مرتین وراه محمد مرتین ‘‘(کہ اللہ تعالی نے اپنا دیدار اورکلام محمد وموسی کے درمیان تقسیم کردیا تو موسی علیہ السلام نے دومرتبہ اللہ تعالی سے کلام  کیااورمحمدرسول اللہ ﷺنے دو دفعہ اللہ رب العزت کا دیدار کیا)اور مسروق ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ ؓکی خدمت میں حاضر ہوا میں نے عرض کیا کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے فرمایا مسروق ؒ تو نے ایسی بات کہہ دی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے بیان کرتے ہیں میں نے عرض کیا اے ام المومنین ذرا ٹھہرئیے (اور مجھے مہلت دیجئے )کہ کچھ عرض کروں اورمیں نے یہ آیت پڑھی ’’لقد رای من آیات ربه الکبری ‘‘فرمایا تو اس آیت کو کہاں لے جارہا ہے یہ تو جبریل کی رویت کابیان ہے ۔

صحیح مسلم میں ابوذر ؓ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا ’’هل رایت ربک‘‘  ارشاد فرمایا ’’نور انی اراہ ‘‘ایک روایت میں رأیت نورا اوربعض شارحین نے ’’نورانی اراہ ‘‘کو ’’نورانی اراہ ‘‘پڑھا ہے یعنی وہ ذات رب جس کو میں نے دیکھا ہے وہ نور والی ذات ہے کہ میں اس کا دیدار کررہا ہوں۔

عکرمہ سے بروایت ترمذی اگرچہ ابتدا ابن عباس کی بات پر تردد اوراشکال ظاہر ہورہا ہے لیکن حافظ ابن کیثرؒنے بروایت ابن ابی حاتم عباد بن منصور سے یہ بیان کیا ہے کہ میں نے عکرمہ سے ماکذب الفواد مارأی کی تفسیر دریافت کی تو عکرمہ کہنے لگے کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہیں یہ بتاوں کہ رسول اللہ ﷺ نے خدا کادیدار کیا ہے میں نے کہا ہاں فرمایا ہاں دیکھا ہے اور ایک دفعہ کے بعد پھر ایک بار اوربھی دیکھا ۔

خاتم المحدثین حضرت سید انور شاہ کشمیر اوراستاذی شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کی رائے یہ ہے کہ معراج میں آنحضرت ﷺ کو رویت خداوندی ہوئی ہے مشکلات القرآن میں حضرت شاہ صاحب ؒ نے ان آیات پر کلام فرمایا اور اس تحقیق کو استاذ محترم نے فتح الملہم شرح صحیح مسلم میں مدار تحقیق اورحل مسئلہ کے طور پر اختیار فرمایا حضرت شاہ صاحب نے ان آیات النجم کے مضمون کو تین حصوں پر اورتین حالتوں کے بیان پر محمول فرمایا جس کا حاصل یہ ہے کہ ابتدائی تین آیات میں اللہ نے موحی الیہ یعنی اپنے رسول کاذکر فرمایا کہ استقامت علی الحق اورعصمت وحفاظت کایہ مقام ہے اوران کا ہر قول وفعل وحی الہی ہے موحی الیہ کے بیان کے بعد واسطہ وحی یعین وحی پہنچانے والے قاصد کی عظمت وقوت کابیان ہوا اوریہ کہ موحی الیہ کو واسطہ وحی اورقاصد سے معرفت اورقرب بھی ہے جو افق اعلی کے عنوان سے ذکر کیا گیا اس کے بعد کی آیات اس حالت کو بیان کررہی ہیں جو موحی الیہ اوررب العزت کے مابین شب معراج میں واقع ہوتی وہ قرب ودیدار ہے جسکو ماکذب الفؤاد مارای میں بیان فرمایا گیا اورجن آیات کے دکھلانے کے لیے سفراسراء کرایا گیا جس کو فرمایا گیا لنريه من ایاتنا (تاکہ دکھائیں ہم اپنی عظیم آیات ونشانیاں)عروج سموات اورسدرۃ المنتہی پر اس وعدہ کی تکمیل کرکے فرما دیا گیا لقد رای من ایات ربه الکبری تو اگر یہ آیت صرف رویۃ جبریل ہوتی تو نہ تو اس کے وعدہ کی ضرورت تھی اورنہ ہی اس کو عظیم ترین آیات میں شمار کیا جاتا کیونکہ جبریل امین کی رویت تو اصلی صورت میں پہلے ہی آغاز وحی کے زمانہ میں ہوچکی تھی جو معراج سے آٹھ نو برس قبل کازمانہ تھا تو پھر ظاہر ہے لنريه سے جس چیز کے دکھانے کاوعدہ ہورہا وہ وہی چیز ہوسکتی ہے جس کوآپﷺ نے پہلے نہ دیکھا ہو علاوہ ازیں جبریل تو آپ ﷺ کے وزیر تھے جیسا کہ احادیث صحیحہ وصریحہ سے ثابت ہے تو پھر صرف ان کے دیدار کے لیے معراج جیسا عظیم الشان معجزہ مقدر فرمانا قرین قیاس نہیں معلوم ہوتا تھا اس وجہ سے ھی یہی راجح معلوم ہوتا ہے کہ اس تیسرے حصہ آیات میں قرب خداوندی اوردیدار خداوندی کابیان ہے جس کےلیے سیرملکوت سموت کرائی گئی اورسدرۃ المنتہی سے بلند مقام تک پہنچنایا پھر جب کہ حضرات صحابہ کی ایک جماعت اس کی قائل تھی اورآیات کا انطباق بھی بلاتکلف وتردد ہو رہا ہے تو معراج میں دیدار خداوندی ماننے میں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا ہے۔ آیت مبارکہ ’’لاتدرکه الابصار ‘‘سے پیداہونے والے اشکال حل کرنے کے لیے استاذ محترم شیخ الاسلام اپنے فوائد میں فرماے ہیں۔لیکن یادرہے کہ یہ رویت وہ نہیں جس کی نفی آیت ’’لاتدرکه الابصار ‘‘میں کی گئی ہے کیونکہ اس سے غرض احاطہ کی نفی کرنا ہے یعنی نگائیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں (جیسے کہ مادری چیزوں کی حقیقت کا احاطہ اورماہیت کا ادراک ہوجاتا ہے )علاوہ بریں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جب سوال کیاگیا کہ دعوائے رویت آیت ’’لاتدرکه الابصار ‘‘ کے مخالف ہے تو فرمایا ویحک ذاک اذا تجلی بنوره الذي هو نوره رواه الترمذی ۔معلوم ہوا کہ خداوند قدس کی تجلیات وانوار متفاوت ہیں بعض انوار قاہرہ للبصر ہیں بعض نہیں اوررویت فی الجملہ دونوں پر صادق آتی ہے اوراسی لیے کہاجاسکتا ہے کہ جس درجہ کی رویت مومنین آخرت میں نصیب ہوگی جب کہ نگاہیں تیز کر دی جائیں گی جو اس تجلی کو برداشت کرسکیں گی وہ دنیا میں کسی کو حاصل نہیں ہاں ایک خاص درجہ کی رویت سیدنامحمد رسول اللہ ﷺ کو شب معراج میں ابن عباس کی روایت کے موافق میسر ہوئی اوراس خصوصیت میں کوئی بشر آپ کا شریک وسہیم نہیں ۔نیز انہی انوار وتجلیات کے تفاوت اورتنوع پر نظر کرتے ہوئے کہاجاسکتا ہے کہ (حضرت)عائشہ اور(حضرت)ابن عباس ؓ کے اقوال ہیں کوئی تعارض نہیں شاید وہ نفی ایک درجہ میں کرتی ہوں اوریہ اثبات دوسرے درجہ میں کررہے ہوں اور اسی طرح ابوذر ؓ کی روایات رأیت نورا اورنورانی اراه یا نور انی اراهمیں تطبیق ممکن ہے واللہ سبحانہ وتعالی اعلم انتهی کلامه من فواهده

حضرت عبداللہ بن عباس ؓکی روایت راه مرتین کی مراد بعض روایات کے الفاظ سے یہ کی جاتی ہے کہ مرة بقلبه ومرة راه بعینه لیکن یہ بھی امکان ہے کہ ایک مرتبہ کی رویت وہ ہو جو حالت منام میں ایک رات آپ نے فرمائی جس کا ذکر حدیث اختصام ملاء اعلی میں ہے اوردوسری مرتبہ شب معراج میں جیسا کہ امام احمد بن حنبلؒ نے ایک روایت میں ابن عباس سے مرفوعا یہ نقل کیا قال رسول اللہ ﷺ رایت ربی عزوجل ان لفظوں کو روایت کرکے کہا فانہ حدیث اسناہ علی شرط الصحیح کہ یہ حدیث ایسی ہے کہ اس کی سند صحیح کی شرط پر ہے فرمایا لیکن یہ حدیث منام کاایک مختصر حصہ ہے جیساکہ احمد بن حنبل ؒ نے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میرا رب میرے سامنے متجلی ہوا ایک بہترین صورت میں حالت نوم میں اورفرمایا اے محمد جانتے ہوکہ ملاء اعلی کس چیز میں خصومت کررہے ہیں میں نے کہاں نہیں تو رب العزت نے اپنا دست بے مثال میرے دنوں شانوں کے درمیان رکھ دیا جس کی ٹھنڈک (لطافت وسکینت )میں اپنے سینہ کے درمیان محسوس کرنے لگا اس کےبعد پھر جب سوال کیا تو میں نے جواب دیا نعم فی الکفارات والدرجات الخ

بہر کیف ان قرائن اوردلائل سے آیات نجم کے اس تیسرے حصہ کو رویت خداوندی پر محمول کرنا واضح معلوم ہوتا ہے مسئلہ کی اہمیت تو چاہتی تھی کہ اس کے متعلقہ پہلووں پر تفصیل سے کلام کیا جاتا لیکن ضیق مقام کے باعث اختصار کےساتھ یہ نقول پیش کردیں اورترجیح راجح کے طور پر حضرت شاہ صاحب اوراستاذ محترم کی رائے ناچیز نے اپنی تعبیر میں پیش کردی میں اپنے علم وفہم کے قصور کے باعث نہیں کہہ سکتا کہ حضرت شاہ صاحب کی مراد بتمام وکمال واضح کرسکا یا نہیں حضرات قارئین سے اپنی تقصیر وکوتاہی پرعفو وگذر کا طالب ہوں فاصفحواالصفح الجمیل

تفسير عثماني میں ہے:

1۔معراج میں رویت باری تعالی کا مسئلہ

شاید ابن عباس وغیرہ کے قول کے موافق معراج میں جو اللہ کی دیدار حضور ﷺ کو ہوا اس کا بیان اسی آیت کے ابہام میں منطوی ومندرج ہو کیونکہ پہلی آیتوں کے متعلق تو عائشہ صدیقہ کی احادیث میں تصریح ہے کہ ان سے رویت رب مراد نہیں مخض رویت جبریل مراد ہے ابن کثير ؒ نے مجاہد سے جوابن عباس ؓکے اخص اصحاب میں سے ہیں اسی آیت کے تحت میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں

کا ن اغصان السدرة لؤلؤ وياقوتا وزبرجدا فراها محمدﷺ وراي ربه بقلبه

یہ روایت چونکہ صرف قلب سے نہ تھی بلکہ قلب اوربصر دونوں کو دیدار سے حصہ مل رہا تھا جیسا کہ مازاغ البصر سے ظاہر ہوتا ہے شاید اسی لیے ابن عباس ؓ نے طبرانی کی بعض روایات میں فرمایا

راه مرتين مرة بقلبه ومرة ببصره

یہاں دو مرتبہ دیکھنے کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ہی وقت میں دوطرح دیکھاکما قالوا في حديث انشق القمر بمکة مرتين ظاہری آنکھ سے بھی اوردل کی آنکھوں سے بھی لیکن یادر رہے کہ یہ روایت وہ نہیں جس کی نفی لاتدرکه الابصار میں کی گئی ہے کیونکہ اس سے غرض احاطہ کی نفی کرہےیعنی نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔

علاوه برین ابن عباس سے جب سوال کیا گیا کہ دعوی رویت آیت ’’لاتدرکه الابصار ‘‘کےمخالف ہے تو فرمایا ویحک ذاک اذاتجلی بنورره الذی هو نوره (رواہ الترمذی )معلوم ہوا کہ خداوندقدوس کی تجلیات وانوار متفاوت ہیں بعض انوار قاہرہ للبصر ہیں بعض نہیں اور رویت رب فی الجملہ دونوں درجوں پر صادق آتی ہے اور اسی لیے کہا جاسکتا ہے کہ جس درجہ کی رویت مومنین کو آخرت میں نصیب ہو گی جبکہ نگاہیں تیز کردی جائیں گی جو اس تجلی کو برداشت کرسکیں وہ دنیا میں کسی کو حاصل نہیں ہاں ایک خاص درجہ کی رویت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو شب معراج میں ابن عباس کی روایت کے موافق میسر ہوئی اور اس خصوصیت میں کوئی بشر آپ کا شریک وسہیم نہیں نیز ان ہی انوار وتجلیات کے تفاوت وتنوع پر نظر کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ عائشہ اورابن عباس ؓکےاقوال میں کوئی تعار ض نہیں شاید وہ نفی ایک درجہ میں کرتی ہوں اوریہ اثبات دوسرے درجہ میں کررہے ہوں اوراسی طرح ابوذر کی روایات رایت نورا اورنور انی اراہ میں تطبیق ممکن ہے۔

بيان القرآن

2۔حضرت تھانویؒ ’’لاتدرکه الابصار ‘‘کی تفسیر میں فرماتے ہیں حدیثوں میں جو حضور ﷺ سے اس سوال کے جواب میں هل رایت ربک؟ دوجواب آئے ہیں ایک نورانی اراہ دوسرا رایت نوراپہلے جواب میں احاطہ مراد ہے اوردوسرے میں مطلق رویت اورجاننا چاہیے کہ لیلۃ المعراج میں آپ کا اللہ تعالی کو دیکھنا جیسا کہ جلالین میں بتخریج مستدرک حاکم بروایت ابن عباس ؒ حضور ﷺ کا ارشاد منقول ہے رایت ربی عزوجل وہ اس حکم امتناعی شرعی فی الدنیا سے مخصوص ہے اورشیخ اکبر ؒ سماوات ومافوقہا کو دنیا سے خارج فرماتے ہیں اورآخرت میں داخل کرتے ہیں ۔

3۔اور سورۃ النجم کی تفسیر میں فرماتے ہیں اوران آیات کی تفسیر بعض مفسیرین رویت الہیہ کے ساتھ کی ہے مگر مسلم کی روایت میں حضرت عائشہ ؓ سے رویت جبرائیلیہ کے ساتھ تفسیر ان آیات کی خود حضور ﷺ سے منقول ہے۔

فہم حدیث (1/63)میں ہے:

اللہ تعالی کا ایک تو نورذاتی ہے جس پر پھر مزید نور کا حجاب ہے۔

عن ابي موسي قال قال رسول ﷺ ان الله…..حجابه النور لو کشفه الاحرقت سبحات وجهه ما انتهي اليه بصره من خلقه (مسلم)

ترجمہ:حضرت ابوموسی اشعری ؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نےفرمایا اللہ تعالی کا حجاب (یعنی اس کے دیدار سے مانع بھی ) نورہے۔اگر وہ اس کو دور کردےتو اس کے چہرے (یعنی ذات)کے انوار اس کی تمام مخلوق کو جس پر اس کی نظر ہے جلاڈالیں۔

جنت میں مومنین کو جو دیدارالہی نصیب ہو گا اس وقت حجاب اٹھا دیا جائے گا۔

عن صهيب عن النبي ﷺ قال اذا دخل اهل الجنة الجنة قال يقول الله تبارک وتعالي تريدون شيئا ازيد کم فيقولون الم تبيض وجوهنا الم تدخلنا الجنة وتنجينا من النار قال فيکشف الحجاب فما اعطوا شيئا احب اليهم من النظر الي ربهم (مسلم)

ترجمہ:حضرت صہیب ؓ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا جب جنتی جنت میں داخل ہو چکیں گے اللہ تبارک وتعالی فرمائیں گے (ائے جنتیو!)تم کچھ اور چاہتے ہو جو میں تمہیں مزید دے دوں جنتی کہیں گے (آپ نے تو ہمیں بہت کچھ دے دیا )آپ نے ہمارے چہرے روشن کردیئے ہم کو جنت میں داخل کردیا اورہم کو جہنم سے نجات دی (اب مزید کیاچاہیے )اس وقت حجاب اٹھادیا جائے گا تو جنتیوں کو اپنے رب کے دیدار سے بڑھ کرکچھ محبوب نہ دیا گیا ہو گا۔

جنت  میں داخلہ سے پہلے آنکھوں سے بلاحجاب دیدار ممکن نہیں اور نہ ہی ایسا دیدار معراج کے موقع پر نبی ﷺ کو حاصل ہوا۔

عن مسروق قال کنت متکئا عند عائشة رضي الله عنها فقالت يا ابا عائشة ثلاث من تکلم بواحدة منهن فقد اعظم علي الله الفرية قلت ماهن قالت من زعم ان محمدا راي ربه فقد اعظم علي الله الفرية قال وکنت متکئا فجلست فقلت يا ام المومينين نظريني ولاتعجليني الم يقل الله تعالي ولقد راه بالافق المبين ولقد راه نزلة اخري فقالت انا اول هذه الامة سال عن ذلک رسول الله ﷺ فقال انما هو جبريل عليه السلام لم اراه علي صورته خلق عليها غير هاتين المتين رايته منهبطا من السماء سادا عظم خلقه مابين السماء الي الارض فقالت اولم تسمع ان الله عزوجل يقول لا تدرکه الابصار وهو يدرک الابصار وهو اللطيف الخبير اولم تسمع ان الله يقول وماکان لبشر ان يکلمه الله الاوحيا او من وراء حجاب اويرسل رسولا الي قوله علي حکيم(مسلم)

ترجمہ:مسروق ؒ کہتے ہیں میں حضرت عائشہ کے ہاں ٹیک لگائے بیٹھا تھا کہ انہوں نے(مجھ سے میری کنیت بولتے ہوئے )کہا ابے ابو عائشہ (یعنی مسروق )تین باتیں ایسی ہیں کہ جو شخص ان میں سے کسی ایک کو بھی کہے تو اس نے اللہ تعالی پر بڑا جھوٹ باندھا کہتے ہیں میں نے پوچھاوہ ( تین باتیں )کیا ہیں انہوں ن ےفرمایا جوشخص یہ کہے کہ محمدﷺ نے اپنے رب کو (بلاحجاب اپنی آنکھوں سے)دیکھا تو اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھا کہتے ہیں میں ٹیک لگائے ہوئے تھا (یہ سن کر)میں سنبھل کربیٹھ گیا اور کہا اے ام المومنین ذرا ٹھہرئے اورجلدی نہ کیجئے (کیونکہ مجھے آپ کی بات سے اتفاق نہیں ہو رہا )کیا خود اللہ تعالی نے (قرآن پاک میں )نہیں فرمایا ولقد راٰہ بالافق المبین اور اس نے دیکھا ہے اس کو آسمان کے کھلے کنارہ کے پاس (سورۃ تکویر)اور ولقد راٰہ نزلۃ اخری اوردیکھا ہے اس کو اترتے ہوئے ایک بار اوربھی(سورۃ نجم)

حضرت عائشہ نے کہا اس امت مسلمہ میں سب سے پہلے میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کےبارے میں پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں میں نے ان کو ان کی (اصلی )صورت میں جس پر وہ پیدا کیے گئے ہیں ان دوموقعوں کے علاوہ نہیں دیکھا میں نے ان کو آسمان سے اترے ہوئے دیکھا ان کی عظیم خلقت آسمان وزمین کے درمیان تمام جگہ کو گھیرے ہوئے تھی  ۔حضرت عائشہ نے کہا کیا تم نے اللہ عزوجل کا یہ قول نہیں سنا لاتدرکہ الابصار وہو یدرک الابصار وہو اللطیف الخبیر(آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرتیں وہ آنکھوں کا ادراک کرتا ہے اور وہی باریک بین اور باخبر ہے)اور کیا تم نے یہ ارشاد الہی نہیں سنا و ماکان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من وراءحجاب او یرسل رسولا الی قولہ علی حکیم(اورکسی آدمی کی طاقت نہیں کہ اللہ اس سے باتیں کرے مگر اشاہ سے یا پردہ سے پیچھے یا بھیجے  کوئی پیغام لانے والا)سورہ شوری:51)

عن مسروق قال سالت عائشة هل راي محمد ﷺربه فقالت سبحان الله لقد قف شعري لماقلت(مسلم)

ترجمہ:مسروق ؒ کہتے ہیں میں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کیا حضرت محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا انہوں نے فرمایا سبحان اللہ (تعجب ہے تم نے کیا بات کہی تم نے تو ایسی سخت بات کہی کہ )تمہاری بات کے خوف سے تو میرے رونگٹے کھڑےہوگئے ہیں (رسول اللہ ﷺ نے اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو بلاحجاب ہر گز نہیں دیکھا)

عن ابي ذر قال سالت رسول الله ﷺ هل رايت ربک قال نور اني اراه (مسلم)

ترجمہ:حضرت ابوذر ؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کیا آپ نے (معراج کے موقع پر )اپنے رب کو دیکھا تھا آپ نے فرمایا اللہ تعالی (کا نور ذاتی )تو نور ہے میں اس کو (اپنی آنکھوں سے)کیسے دیکھ سکتا ہوں

اللہ تعالی کے نورذاتی کو دل سے دیکھنا ممکن ہے

دل سے دیکھنے سے مراد فقط علم کا حاصل ہونا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ہے کہ جیسے کوئی صورت آنکھوں میں آجاتی ہے ایسے ہی دل میں آجائے

عن عطاء عن ابن عباس  قال راه بقلبه(مسلم)

ترجمہ:عطاء ؒ  سے روایت ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کا دیدار اپنے قلب سے کیا

عن عطاء عن ابن عباس قال لم يره رسول الله ﷺ بعينه انما راه بقلبه (ابن مردويه)

ترجمہ:عطاء ؓ سے روایت ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نےفرمایا رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا بلکہ صرف اپنے دل سے دیکھا

عن عکرمة عن ابن عباس قال راي محمد ربه قلت اليس اله يقول لاتدرکه الابصار وهو يدرک الابصار قال ويحک ذاک اذا تجلي بنوره الذي هو نوره وقد راي ربه مرتين(ترمذي)

ترجمہ:عکرمہ ؒ اللہ کہتے ہیں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ حضرت محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا (اس پر)میں نے کہا کیا اللہ تعالی یہ نہیں فرماتے لاتدرکہ الابصار وہو یدرکہ الابصارآنکھیں اس کا ادراک نہیں کرتیں اور وہ آنکھوں کاادارک کرتا ہے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ارے یہ تو اس وقت ہے جب اللہ تعالی اپنے نور ذاتی کے ساتھ جلوہ افروزہوں(اور معراج کے موقع پر اس کی نفی تو ہم بھی کرتے ہیں ہم تو اور طریقے سے یعنی دل سے)دیکھنے کے قائل ہیں اوردوسرے طریقے سے )آپ نے اپنے رب کو دومرتبہ دیکھا

رسول اللہ ﷺنے حجاب  نوری کو آنکھوں سے دیکھا

عن عبدالله بن شقيق قال قلت لابي ذر لو رايت رسول الله ﷺ لسألته فقال عن اي شيئ کنت تساله قال کنت اساله هل رايت ربک قال ابوذر قد سالته فقال رايت نورا(مسلم)

ترجمہ:عبداللہ بن شقیق ؒ کہتے ہیں میں نے حضرت ابوذرعفاری ؓ سے کہا اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہوتی تو میں نے آپ ﷺسے ضرورپوچھاہوتا انہوں نےپوچھا (ہاں بھئی)تم رسول اللہ ﷺ سے کیا بات پوچھتے میں  نے کہامیں پوچھتا کہ کیا آپ(ﷺ) نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟تو حضرت ابوذر ؓ نے کہا (بھئی) یہ بات تو میں نے آپ ﷺسے پوچھی تھی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے (اپنی آنکھوں سے)نور (کے حجاب)کو دیکھا تھا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved