• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سنت وبدعت کی تعریف

استفتاء

محترم میری عرض یہ ہے کہ بدعت وسنت میں کیا فرق ہے؟یا بدعت وسنت کی تعریف بتادیں تو مجھے سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جس بات کی کوئی شرعی دلیل نہ ہو اسے دین سمجھ کر  کرنا بدعت ہے اور بدعت کے مقابلے میں سنت کا  مطلب یہ ہے کہ جس بات کی کوئی شرعی دلیل موجود ہو۔

الاعتصام للشاطبی(28/1ط:دارالکتاب العربی) میں ہے:

فالبدعة  عبارة عن: "‌طريقة ‌في ‌الدين مخترعة، تضاهي الشرعية، يقصد بالسلوك عليها المبالغة في التعبد لله سبحانه”

الطریقۃ المحمدیۃ (ص51ط:دارالقلم دمشق) میں ہے:

قلنا: للبدعة معنى لغوي عام، هو:المحدث مطلقا عادة أو عبادة………..ومعنى شرعي خاص هو: الزيادة فى الدين أو النقصان منه، الحادثان بعد الصحابة بغير اذن من الشارع لا قولا، ولا فعلا ولا صريحا، ولا اشارة، فلا تتناول العادات أصلا بل تقتصر على بعض الاعتقادات وبعض صور العبادات. فهذه هى مراده صلى الله عليه وسلم بدليل قوله  صلى الله عليه وسلم "‌عليكم ‌بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين”و قوله  صلى الله عليه وسلم "‌أنتم ‌أعلم بأمر دنياكم”و قوله  صلى الله عليه وسلم’’‌من ‌أحدث ‌في ‌أمرنا ‌هذا ‌ما ‌ليس ‌فيه ‌فهو ‌رد‘‘

لمعات التنقیح(444/1ط:رحمانیہ،کندھار) میں ہے:

والسنة في الأصل: الطريقة والسيرة، وفي الشرع: يراد بها ما أمر به النبي -صلى اللَّه عليه وسلم-، ونهى عنه، وندب إليه قولًا وفعلًا مما لم يأت به الكتاب العزيز، وقد يراد به المستحب سواء دل عليه كتاب أو سنة أو إجماع أو قياس، ومنه سنن الصلاة، وقد يراد به ما واظب عليه النبي -صلى اللَّه عليه وسلم- مما ليس بواجب، فهي ثلاث اصطلاحات، كذا في (مجمع البحار)

والبدعة فعل ما لم يسبق إليه، فما وافق أصلًا من السنة يقاس عليها فهو محمود، وما خالف أصول السنن فهو ضلالة، ومنه: (كل بدعة ضلالة)، انتهى

التحریرفی اصول الفقہ(ص328،ط:دارالکتاب) میں ہے:

السنة: الطريقة المعتادة،وفى الاصول: قوله عليه السلام وفعله وتقريره، وفى فقه الحنفية: ما واظب على فعله مع ترك ما، بلا عذر ليزم كونه بلا وجوب.

براہینِ قاطعہ(ص32ط:امدادیہ،دیوبند) میں ہے:

جو شئے قرونِ ثلاثہ میں موجود ہو وہ سنت ہے اور جو بوجودِ شرعی موجود نہ ہو وہ بدعت ہے……..جس کے جواز کی دلیل قرونِ ثلاثہ میں ہو خواہ وہ جزئیہ بوجودِ خارجی ان قرون میں ہو یا نہ ہو اور خواہ اس کی جنس کا وجود خارج میں ہوا یا نہ ہو ا وہ سب سنت ہےاور وہ بوجود شرعی ان قرون میں موجود ہے اور جس کے جواز کی دلیل نہیں تو خواہ وہ ان قرون میں بوجودِ خارجی ہوا ہو یا نہ ہوا ہو وہ سب  بدعتِ ضلالہ ہے ۔

فتاوی محمودیہ(27/3ط: ادارۃ الفاروق) میں ہے:

سوال: 1۔کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ سنت کے صحیح معنی کیا ہیں اور اور سنت کس کو کہتے ہیں؟ شرعی حیثیت سے سنت کی تعریف کیا ہے؟  سنت کے اقسام اور اس کی تفصیل کتبِ فقہ کے حوالہ سے بیان کریں۔

2۔بدعت کے صحیح معنی کیا ہیں اور بدعت کس کو کہتے ہیں؟ شرعی حیثیت سے بدعت کی تعریف کیا ہے؟ بدعت کے اقسام  اور اس کی تفصیل کتبِ فقہ کے حوالہ سے بیان کریں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیا :1. سنت کے معنی لغت میں طریقے کے ہیں، خواہ اچھا ہو، خواہ خراب ہو چناچہ حدیث میں سنتِ حسنہ سنتِ سیئہ دونوں وارد ہیں۔

اصطلاحی تعریف یہ ہے:طريقة مسلوكة فى الدين بقول أو فعل من غير لزوم ولا انكار على تاركها، وليست خصوصية،

سنت کی دو قسمیں ہیں:

والسنة نوعان: ‌سنة ‌الهدي، وتركها يوجب إساءة وكراهية كالجماعة والأذان والإقامة ونحوها. وسنة الزوائد، وتركها لا يوجب ذلك كسير النبي – عليه الصلاة والسلام – في لباسه وقيامه وقعوده

2.بدعت کے معنی نئی چیز جو پہلے سے نہیں تھی، لغۃ ہر نئی چیز کو بدعت کہتے ہیں۔

اصطلاح میں بدعت کی تعریف یہ ہے: ‌ما ‌أحدث ‌على ‌خلاف ‌الحق المتلقى عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – من علم أو عمل أو حال بنوع شبهة واستحسان، وجعل دينا قويما وصراطا مستقيما.

اس تعریف کےاعتبار سے بدعت ہمیشہ سیئہ اور ضالہ ہی ہوتی ہے البتہ لغوی معنی کے اعتبار سے کبھی حسنہ بھی ہوتی ہے۔

بدعت کی اقسام: شرعا بدعت کی صرف ایک قسم ہے یعنی سیئہ وہ کسی طرح جائز نہیں، جن لوگوں نے کوئی تقسیم کی ہے وہ لغت کے اعتبار سے ہے۔

امداد المفتین(155/2ط:دارالاشاعت) میں ہے:

بدعت لغت میں ہر نئے کام کو کہتے ہیں خواہ عادت ہو یا عبادت جن لوگوں نے یہ معنی لئے ہیں  انہوں نے بدعت کی تقسیم دو قسم کی کی ہے  سیئہ اور حسنہ جن فقہاء کے کلام میں بعض بدعت کو حسنہ کہا گیا ہے وہ اس لغوی معنی کے اعتبار سے بدعت ہیں ورنہ در حقیقت بدعت نہیں  اور معنی شرعی بدعت کے یہ ہیں کہ دین میں کسی کام کا زیادہ یا کم کرنا جو قرنِ صحابہؓ ،تابعینؒ کے بعد ہوا ہو اور نبی کریم ﷺ سے اس کے کرنے کی اجازت منقول نہ ہو، نہ قولا، نہ فعلا، نہ صراحۃ ،نہ اشارۃ،

آپ کے مسائل اور ان کا حل (45/1ط: لدھیانوی) میں ہے:

دین میں کوئی ایسا نظریہ، طریقہ اور عمل ایجاد کرنا بدعت ہے جو:

الف:…طریقہٴ نبوی کے خلاف ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ قولاً ثابت ہو، نہ فعلاً، نہ صراحتاً، نہ دلالۃً نہ اشارةً۔

ب:…جسے اختیار کرنے والا مخالفت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی غرض سے بطورِ ضد و عناد اختیار نہ کرے، بلکہ بزعم خود ایک اچھی بات اور کارِ ثواب سمجھ کر اختیار کرے۔

ج:…وہ چیز کسی دینی مقصد کا ذریعہ و وسیلہ نہ ہو بلکہ خود اسی کو دین کی بات سمجھ کر کیا جائے۔

اصول دین (ص174) میں ہے:

بدعت کا لغوی معنی: علامہ عینیؒ لکھتے ہیں

:البدعة فى الاصل احداث أمر لم يكن فى زمن رسول اللهﷺ

علامہ مرتضیٰ زبیدی لکتے ہیں

:كل محدثة بدعة انما يريد ما خالف اصول الشريُة ولم يوافق السنة كل محدثة بدعة.

تنبیہ: بدعت کے مقابلہ میں جب سنت کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے وہ کام مراد ہوتا ہے جس کے جواز کی کوئی بھی شرعی دلیل موجود ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved