• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

حضرت ابوبکر صدیق ؓ کےحضرت علی ؓسے افضل ہونے کی وجوہات

استفتاء

(1)کیاحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے افضل ہیں؟(2)اگرہاں تو وجہ فضیلت ومعیار افضلیت پیش کریں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے افضل ہیں۔

2۔وجہ فضلیت درج ذیل احادیث ہیں اور حضرات صحابہ کرام ؓ اورپوری امت کااجماع(اتفاق)ہے:

۱۔صحیح بخاری (3/ 1342)میں ہے:

«عن محمد ابن الحنفية قال:قلت لأبي: ‌أي ‌الناس ‌خير بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قال: أبو بكر، قلت: ثم من؟ قال: ثم عمر، وخشيت أن يقول عثمان، قلت: ثم أنت؟ قال: ما أنا إلا رجل من المسلمين»

ترجمہ:حضرت محمدؒبن حنفیہ(جوحضرت علیؓ کےبیٹے تھے)کہتے ہیں میں نے اپنے والد (حضرت علیؓ)سے پوچھا کہ نبی ﷺ کےبعد سب سے افضل شخص کون تھے؟انہوں نے جواب دیا ابوبکرتھے ،میں نے پوچھا پھرکون تھے؟انہوں نے جواب دیا عمر تھے ،اب مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ عثمان کانام لیں تومیں نے کہا ان کےبعد تو آپ تھے؟اس پر حضرت علی ؓ نے جواب دیا کہ میں تو عام حیثیت کاآدمی تھا۔

۲۔ابوداود(4/337)میں ہے:

عن ابن عمررضي الله عنهما قال کنا نقول ورسول الله حي افضل امة النبي ﷺ بعده ابوبکر ثم عمر ثم عثمان رضي الله عنهم

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم جبکہ رسول اللہ حیات تھے یہ کہا کرتے تھے کہ آپﷺکےبعد آپ کی امت میں سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر ہیں پھر عثمان رضی اللہ عنہم

۳۔ سنن ترمذی (5/ 607)میں ہے:

عن عبد الله بن شقيق قال: قلت لعائشة: أي أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كان أحب ‌إلى ‌رسول ‌الله؟ قالت: «أبو بكر»، قلت: ثم من؟ قالت: «عمر»

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن شقیقؒ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سب سے زیادہ آپ ﷺ کوکو ن محبوب تھا؟فرمایا ابوبکرؓ،میں نے عرض کیا پھر کون؟ فرمایا عمرؓ..

۴۔سنن ترمذی میں ہے:

عن عمررضي الله عنه قال ابوبکررضي الله عنه سیدناوخیرنا واحبناالی رسول الله ﷺ

ترجمہ:حضرت عمر ؓکہتے ہیں کہ ابوبکر ؓہمارے سردار ہیں اورہم میں سب سے بہترین ہیں اورہم میں سب سے زیادہ رسول اللہﷺ کو محبوب تھے۔

۵۔صحیح بخاری (4/ 1584)میں ہے:

«عن أبي عثمان أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث عمرو بن العاص على ‌جيش ‌ذات السلاسل، قال: فأتيته فقلت: أي الناس أحب إليك؟ قال: (عائشة). قلت: من الرجال؟ قال: (أبوها). قلت: ثم من؟ قال: (عمر). فعد رجالا، فسكت مخافة أن يجعلني في آخرهم»

ترجمہ:حضرت عمر وبن عاصؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ان کو جنگ سلاسل کےلیے لشکر کا امیر مقرر کیا، کہتے ہیں ہیں کہ میں آپﷺ کےپاس آیا اورپوچھا کہ آپ ﷺکو لوگوں میں سےسب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا عائشہ ،میں نے پوچھا  مردوں میں سے کون ہیں؟آپ ﷺنے فرمایا ان کے والد(ابوبکر) ،میں نے پوچھا پھر(ان کےبعد)کون ہیں؟آپ ﷺنے فرمایا عمر ،آپﷺ نے پھر کچھ اور نام گنائے پھر میں اس ڈر سے خاموش ہوگیا کہ کہیں آپ مجھے سب سے آخر ہی میں نہ رکھ دیں۔

ابوداود(2/1272)میں ہے:ى الله ذلك والمسلمون، يأبى الله ذلك والمسلمون فبعث إلى أبي بكر فجاء بعد أن صلى عمر تلك الصلاة فصلى بالناس…. قال ابن زمعة: خرج النبي صلى الله عليه وسلم حتى أطلع رأسه من حجرته ثم قال: لا، لا، لا، ليصل للناس ابن أبي قحافة يقول ذلك مغضبا

ترجمہ:عبداللہ بن زمعہ ؓکہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ کی بیماری سخت ہوئی اور میں آپ ہی کے پاس مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ تھا توحضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کو نماز کے لیے بلایا، آپ ﷺنے فرمایا کسی سے کہو جو لوگوں کو نماز پڑھائے عبداللہ بن زمعہ نکلے تو دیکھا کہ لوگوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ موجود ہیں ، ابوبکررضی اللہ عنہ موقع پر موجود نہ تھے، میں نے کہا: اے عمر! اٹھیے نماز پڑھائیے، تو وہ بڑھے اور انہوں نے اللہ اکبر کہا، وہ بلند آواز شخص تھے، رسول اللہ ﷺنے جب ان کی آواز سنی تو فرمایاابوبکر کہاں ہیں؟ اللہ کو یہ پسند نہیں اور مسلمانوں کو بھی، اللہ کو یہ پسند نہیں اور مسلمانوں کو بھی توحضرت ابوبکر ؓکو بلا بھیجا، وہ حضرت عمرؓ کے نماز پڑھا چکنے کے بعد آئے توبعدوالی نمازیں انہوں نے پڑھائیں۔

(اورایک روایت میں ہے کہ ) جب حضورﷺنے عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنی تو آپ نکلے یہاں تک کہ حجرے سے اپنا سر نکالا، پھر فرمایانہیں، نہیں، نہیں، ابن ابی قحافہ(یعنی ابوبکر) کو چاہیئے کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ،آپ ﷺیہ غصے میں فرما رہے تھے۔

ابوداود(2/1271)میں ہے:

عن ‌أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أتاني جبرائل عليه السلام فأخذ بيدي فأراني باب الجنة الذي تدخل منه أمتي فقال أبو بكر: يا رسول الله، وددت أني كنت معك حتى أنظر إليه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أما إنك يا أبا بكر أول من يدخل الجنة من أمتي»

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کےرسول ﷺ نےفرمایا کہ حضرت جبریل  علیہ السلام میرے پاس آئےاور میرا ہاتھ پکڑ کر جنّت کا وہ دروازہ دکھایاجس سے میری اُمّت جنّت میں داخل ہوگی۔ حضرت سیّدناابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ نے عرض کیایا رسول اللہ !میری یہ خواہش ہے کہ میں بھی اس وقت آپ کے ساتھ ہوتا، تاکہ میں بھی اس دروازے کو دیکھ لیتا۔ آپﷺنے فرمایا: ابوبکر! میری اُمّت میں سب سےپہلے جنّت میں داخل ہونے والے شخص تم ہی ہوگے۔

ابوداود(2/1267)میں ہے:

عن ‌أبي بكرة «أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ذات يوم: من رأى منكم رؤيا؟ فقال رجل: أنا رأيت كأن ميزانا نزل من السماء، فوزنت أنت وأبو بكر فرجحت أنت بأبي بكر، ووزن أبو بكر وعمر فرجح أبو بكر، ووزن عمر وعثمان فرجح عمر، ثم رفع الميزان، فرأينا الكراهية في وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم.»

ترجمہ:حضرت ابوبکرہ ؓسے روایت ہے کہ آپ ﷺ نےایک دن ارشاد فرمایا !تم میں کس نے خواب دیکھا ہے ؟ایک شخص نے عرض کیا میں نےدیکھا ہےکہ آسمان سے ایک ترازو اتراتو آپﷺ  اورحضرت ابوبکرؓ تولے گئے تو آپﷺحضرت ابوبکرؓ سے بھاری نکلے ،حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ تولے گئے تو حضرت ابوبکرؓ بھاری نکلے ،حضرت عمر ؓاورحضرت عثمانؓ تولے گئے توحضرت عمرؓ بھاری نکلے پھر ترازو اٹھالیا گیا ،ابوبکرہ ؓ کہتے ہیں ہم نے رسول اللہ کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھے

«شرح النووی على مسلم(15/ 148)میںہے:

«واتفق ‌أهل ‌السنة على أن أفضلهم أبو بكر»

ترجمہ:اہل سنت والجماعت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہیں۔

مواہب اللدنیہ (2/545)میں ہے:

أفضلهم عند أهل السنة إجماعا أبو بكر، ثم عمر.

ترجمہ :اہل سنت کے نزدیک بالاجماع افضل الصحابہ ابو بکر ہیں ،پھر عمر۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved