• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عالم کی تعریف

استفتاء

لفظ عالم کا اطلاق  کس پر ہوتا ہے آج کل کے زمانے میں ؟

احایث مبارکہ میں علماء کی تکریم پر اور ان کی توہین پر جووعیدیں ذکرہیں ان سے کون لوگ مراد ہونگے آج کل؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

لغوی معنی کے اعتبار سے ہر چیز کی معرفت کا نام علم ہے اور اس کو جاننے والا عالم کہلاتا ہے۔

شریعت کی اصطلاح میں عالم وہ شحص ہے جس کو اللہ تعالی کی ذات وصفات اور احکامات کا علم ہو یعنی  وہ علم ِکلام، علمِ تفسیر، علمِ حدیث اور علمِ فقہ واصولِ فقہ میں رسوخ رکھتا ہو اس کے ساتھ ساتھ وہ شرک نہ کرتا ہو، حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھتا ہو، جلوت وخلوت میں اسے اللہ تعالی کا ڈر حاصل ہو، جس چیز کی اللہ تعالی نے ترغیب دی ہے وہ اسے مرغوب ہو اور جو چیز اللہ تعالی کے ہاں مبغوض ہے اسے اس سے نفرت ہو۔

احادیث مبارکہ میں جن علماء  کی تکریم کا حکم ہے  اور توہین پر وعید ہے ان سے  مراد وہی علماء ہیں جو ان صفات کے حامل ہوں ۔

مرقاۃ المفاتیح(453/1) میں ہے:

وعن أبي هريرة – رضي الله عنه – قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم: ” «إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة أشياء: صدقة جارية، أو علم ينتفع به، أو ‌ولد ‌صالح يدعو له» ". رواه مسلم .

(أو علم ينتفع به) أي: بعد موته. قال ابن الملك: قيد العلم بالمنتفع به لأن غيره لا يؤتى به أجرا، والمراد بالمنتفع به العلم بالله وصفاته وأفعاله وملائكته، ويدخل فيه علم الكلام، أي: العقائد والعلم بكتبه، ويدخل فيه التفسير وبملكوت أرضه وسمائه، ويدخل فيه علم الرياضي. أقول: وفيه نظر. قال: والعلم بشريعة محمد – صلى الله عليه وسلم – ويدخل فيه التفسير أيضا، والحديث والفقه وأصوله. قلت: الأولى الاقتصار على الأخير المشتمل على النقير القطمير

روح المعانی (497/21-22)   میں ہے:

والمراد بالعلماء العالمون بالله عز وجل وبما یلیق به من صفاته الجلیلة وافعاله  الحمیدة وسائر شئوونه الجمیلة لا العارفون بالنحو والصرف مثلا فمدار الخشية  ذالک العلم لا هذه المعرفة  فکل من کان اعلم بالله تعالی کان اخشی.

تفسیر ابن کثیر(531/3) میں ہے:

وقال ابن لهيعة عن ابن ابى عمرة عن عكرمة عن ابن عباس قال: العالم بالرحمن من عباده من لم يشرك بالله شيئا،وأحل حلاله وحرم حرامه وحفظ وصيته أيقن أنه ملاقيه ومحاسب بعلمه ………وعن ابن مسعود رضى الله عنه قال: ليس العلم عن كثرة الحديث ولكن العلم عن كثرة الخشية.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved