• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

” اذا احب اللہ عبدا لم یضرہ ذنب "حدیث ہے یا کسی امام کاقول؟

استفتاء

اذا احب الله عبدا لم یضرہ ذنب ۔یہ حدیث ہے یا کسی امام کا قول ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

یہ ایک معروف حدیث "التائب من الذنب كمن لاذنب له "کا جزء ہے اس جزء كو اكثر محدثين نے ذکر نہیں کیااور جنہوں نے ذکر کیا ہے ان میں سے بعض نے اسے بطور حدیث کے نقل کیا ہے اور بعض نے امام شعبیؒ کے قول کے طور پر ذکر کیا ہے چنانچہ مسند الفردوس (رقم الحدیث 2432)،تاریخ ابن النجار (2/161)اور الرسالۃ القشیریۃ (ص59) میں یہ جزء حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا منقول ہےجبکہ رسائل ابن رجب حنبلی میں  اسے امام شعبیؒ کی طرف منسوب کرکے بیان کیا ہے ۔

مسند الفردوس وغیرہ کی جس روایت میں اسے مرفوع حدیث کے طور پر نقل کیا گیا ہے وہ روایت سند ا ضعیف ہے کیونکہ اس میں دوراوی (احمد بن زکریا اوران کے والد  زکریا بن مہران جن سے انہوں نے یہ روایت نقل کی ہے)مجہول ہیں۔( جس راوی  سے روایت کرنے والے دو سے زیادہ نہ ہوں اور اس راوی کی توثیق بھی ثابت نہ ہو وہ مجہول کہلاتا ہےاورمجہول راویوں کے روایت محدثین کے ہاں ضعیف ہوتی ہے)

ان کے علاوہ  اس کی سند کے ایک اور  راوی "سعید بن عبداللہ بن دینار”بھی محدثین کے ہاں ضعیف ہیں ۔

نیز اس جملے کا مطلب یہ  نہیں کہ  اللہ تعالی کےمحبوب بندوں کو گناہوں کی چھوٹ ہے بلکہ  اس جملے  کا مطلب یہ ہے کہ جو  اللہ تعالی کامحبوب بندہ ہوگا وہ اولا تو اللہ تعالی کی نافرمانی کرے گاہی نہیں جیساکہ اللہ تعالی کے جتنے محبوب بندے گذرے ہیں ان کے احوال سے معلوم ہے اور ثانیا اگر اس سے کوئی نافرمانی ہوگئی تو اللہ تعالی اسے توبہ کی توفیق عطا فرمادیں گے جس کے نتیجے میں آخرت میں وہ گناہ اس کیلئے مضر نہ ہوگا۔

الرسالۃ القشیریہ (ص59)میں ہے :

 أخبرنا أبو بكر محمد بن الحسين بن فورك قال: أخبرنا أحمد بن محمود بن خرزاذ قال: حدثنا محمد بن فضيل بن جابر قال: حدثنا سعيد بن عبد الله قال: حدثنا أحمد بن زكريا قال: حدثني أبي قال: سمعت أنس بن مالك يقول التائب من الذنب كمن لاذنب له و إذا أحب الله عبدا لم يضره ذنب .  

رسائل ابن رجب حنبلی(3/69) میں ہے :OK

قال الشعبي : إذا أحبّ الله عبداً لم يضره ذنب. وتفسير هذا الكلام أنّ الله عزّوجل له عناية بمن يحبه من عباده، فكلما زلق ذلك العبد في هوة الهوى أخذ بيده إلى نجوة النجاة، ييسر له أسباب التوبة، وينبهه على قبح الزلّة، فيفزع إلى الاعتذار، ويبتليه بمصائب مكفرة لما جنى ۔

نخبۃ الفکر (ص56) میں ہے:

” [مجهول العين]فإن سمّي الرَّاوي، وانْفرد راو واحد بالرِّواية عنه، فهو مجهول العين، كالمبهم، إلا أن يوثقه غير مَن ينفرد به عنه على الأصح[مجهول الحال] أَو إن روى عنهُ اثنان فصاعِدا، ولم يوثّقْ فهو مَجْهول الحالِ، وهو المسْتور.وقد قبل رِوَايته جماعَة بغير قيد، وردّها الجمهورُ

الثقات لابن حبان (7/124) میں ہے :

يجتنب من حديثه من رواية سعيد بن عبدالله بن دينار فإن سعيدا يأتي بما لاأصل له عن الأثبات

الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم (4/17) میں ہے:

سعيد بن دينار الدمشقي روى عن الربيع بن صبيح روى عنه سلمة بن شبيب سمعت أبي يقول ذلك.حدثنا عبد الرحمن قال سألت أبي عنه فقال: (هو) مجهول

تمییز الطیب من الخبیث لابن الدیبع الشیبانی الشافعی(ص68)میں ہے  :

حديث التائب من الذنب كمن لاذنب له أخرجه ابن ماجه و الطبراني في الكبير و البيهقي في الشعب و رجاله ثقات وحسنه ابن حجر لشواهده لان في سنده أبا عبيدة بن عبدالله بن مسعود عن أبيه و هو لم يسمع منه و له شواهد ضعيفة……  .

فیض القدیر للمناوی(3/364) میں ہے   :

(وإذا أحب الله عبدا لم يضره ذنب) لأن المحب يستر الحبيب فإن بدا منه شين غفره فإذا أحب عبدا فأذنب ستره فصار كمن لا ذنب له فالذنب يدنس العبد والرجوع إلى الله يطهره وهو التوبة فرجعته إليه تصيره في محل القرب منه كذا ظهر لي في تقريره ثم رأيت حجة الإسلام قال: معناه إذا أحبه تاب عليه قبل الموت فلم تضره الذنوب الماضية وإن كثرت كما لا يضره الكفر الماضي بعد الإسلام.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved