• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک حدیث کی تحقیق

استفتاء

ایک مولانا صاحب نے اپنے بیان میں کہا کہ صحابہؓ کے زمانے میں اتنی تنگ عیشی تھی کہ خود حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اس زمانے میں ہمارا حال یہ تھا کہ ایک مرتبہ ہمارے گھر میں چھینٹ کا کپڑا کہیں سے تحفہ میں آگیا، یہ ایک خاص قسم کا نقش ونگار والا سوتی  کپڑا تھا  اور کوئی بہت  زیادہ قیمتی کپڑا نہیں تھا لیکن پورے مدینہ منورہ میں جب  بھی کسی کی شادی ہوتی اور کسی عورت کو دلہن بنایا جاتا  تو اس وقت میرے پاس یہ فرمائش آتی کہ وہ چھینٹ کا کپڑا عاریۃً ہمیں دیدیں تاکہ ہم اپنی دلہن کو پہنائیں بعد میں حضرت عائشہؓ فرماتی تھیں کہ آج اس جیسے بہت سے کپڑے بازاروں میں فروخت ہورہے ہیں وہی کپڑا آج اگر میں اپنی باندی کو بھی دیتی ہوں تو وہ  بھی ناک منہ چڑھاتی ہے کہ میں تو یہ کپڑا نہیں پہنتی۔ بندہ نے چونکہ یہ واقعہ پہلی دفعہ سنا تو بیان کے بعد مولانا  صاحب سے اس کا حوالہ مانگا تو انہوں نے کہا کہ میں نے بھی اپنے بزرگوں سے سنا ہے ۔ کتاب  کا حوالہ معلوم نہیں۔  براہِ کرم رہنمائی فرمائیں کہ کتب احادیث میں اس طرح کا کوئی واقعہ ہے؟ اگر موجود ہے تو اصل مأخذ بمع اسنادی حیثیت واضح فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ واقعہ بخاری شریف میں موجود ہے۔

صحیح البخاری(رقم الحدیث:2628) میں ہے:

حدثنا ‌أبو نعيم: حدثنا ‌عبد الواحد بن أيمن قال: حدثني ‌أبي قال:دخلت على عائشة رضي الله عنها، وعليها درع قطرى، ثمن خمسة دراهم، فقالت: ‌ارفع ‌بصرك إلى جاريتي انظر إليها، فإنها تزهى أن تلبسه في البيت، وقد كان لي منها درع على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما كانت امرأة تقين بالمدينة إلا أرسلت إلي تستعيره.

ترجمہ: حضرت عبدالواحد بن ایمن اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ایک دن میں حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا  تو اس وقت ان کے جسم پر (مصر کے بنے ہوئے) قطری کپڑے کا کرتا تھا جس کی قیمت پانچ درہم تھی، حضرت عائشہؓ نے دوران گفتگو مجھ سے فرمایا: ذرا میری اس لونڈی کو تو دیکھو یہ کس قدر غرور کرتی ہے یہ گھر میں بھی اس کپڑے کو پہننے پر تیار نہیں ہوتی(چہ جائیکہ اس کو پہن کر باہر نکلے) حالانکہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں میرے پاس اس طر ح کے (یعنی قطری) کپڑے کا ایک کرتا تھا اور مدینہ میں جو بھی عورت  اپنی شادی(یا کسی اور کی شادی) کے وقت اپنی آرائش کرنا چاہتی وہ کسی کو میرے پا س بھیج کر وہی کرتا عاریتاً منگوالیتی۔

عمدۃ القاری(13/275) میں ہے:

والحديث تفرد به البخارى. وقال ابن الجوزى: أرادت عائشة، رضي الله تعالى عنها، أنهم كانوا أولا في ‌حال ‌ضيق، فكان الشيء المحتقر عندهم إذ ذاك عظيم القدر

مرقاۃ المفاتیح(13/114،115) میں ہے:

(قال: دخلت علي عائشة وعليها درع) : أي قميص، ففي القاموس: درع المرأة قميصها، وفي المغرب: درع الحديد مؤنث، ودرع المرأة ما يلبس فوق القميص يذكر (قطري) : بكسر أوله أي مصري (ثمن خمسة دراهم) : برفع الثمن أي ذو ثمنها. وفي نسخة بالنصب على أنه حال من الدرع، قال الطيبي: أصل الكلام ثمنه خمسة دراهم فقلب وجعل المثمن ثمنا (فقالت: ارفع بصرك إلى جاريتي وانظر إليها) : أي نظر تعجب (فإنها) : أي مع حقارتها(تزهى) : بضم أوله ويفتح والهاء مفتوحة لا غير أي تترفع ولا ترضى (أن تلبسه في البيت) : أي فضلا أن تخرج به. وفي فتح الباري: تزهى بضم أوله أي تأنف وتتكبر وهو من الحروف التي جاءت بلفظ البناء للمفعول، وإن كانت بمعنى الفاعل يعني كما يقولون عني بالأمر ونتجت الناقة، قال: ولأبي ذر تزهى بفتح أوله. وقال الأصمعي: لا يقال بالفتح اهـ. قلت: إثبات المحدث أولى من نفي اللغوي (وقد كان لي منها) : أي من جنس هذه الثياب التي لا يؤبه بها (درع على عهد رسول الله – صلى الله عليه وسلم – وفي) : أي في زمانه (فما كانت امرأة تقين) : بصيغة المفعول من التقيين وهو التزيين والمقينة الماشطة أي تزين لزفافها. (بالمدينة إلا أرسلت إلي تستعيره) . والمقصود تغير أهل الزمان مع قرب العهد، فصح: كل عام ترذلون، بل صح في الخبر على ما رواه البخاري وأحمد والنسائي عن أنس مرفوعا: ” «لا يأتي عليكم عام ولا يوم إلا والذي بعده شر منه حتى تلقوا ربكم» ” والسبب هو البعد عن أنواره والاحتجاب عن أسراره المقتضي لظلمات الظلم على أنفسنا، فنسأل الله حسن الخاتمة في أنفس أنفسنا، (رواه البخاري)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved