- فتوی نمبر: 28-191
- تاریخ: 17 جنوری 2023
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
ہماری مسجد کے مؤذن عذر کی وجہ سے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں، کرسی والے صف کے آخر ی کنارے پر نماز پڑھتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ:
- صف کے کنارے سے اقامت کہہ سکتے ہیں؟
- امام کے پیچھے برابر میں کرسی ڈال سکتے ہیں؟
- اقامت بیٹھ کر کہہ سکتے ہیں؟
- اقامت کے لیے دوسرا شخص باقاعدہ مقرر کیا جائے یا کوئی بھی کہہ سکتا ہے؟
نوٹ: دیہات کی مسجد ہے، مؤذن بغیر اجرت کے فی سبیل اللہ خدمت کرتے ہیں دوسرا اذان والا ملنامشکل ہے۔
وضاحت مطلوب ہے: (1)مؤذن صاحب کو کیا عذر ہے؟(2)کیا مؤذن صاحب کھڑے ہوکر اقامت کہہ سکتے ہیں؟
جواب وضاحت: (1)گھٹنے میں شدید تکلیف ہے۔(2) کہہ سکتے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
- کہہ سکتے ہیں لیکن بہتر نہیں۔
فتاویٰ رحیمیہ (1/108) میں ہے:
سوال: ہمارے یہاں اقامت کہنے کا کوئ طریقہ نہیں ہے کبھی امام کے پیچھے کھڑے ہو کر کہہ دی تو کبھی دائیں کنارے پر اور کبھی بائیں کنارے پر کھڑے ہو کر اور یہ قصداً بلا عذر کرتے ہیں تو اقامت کا صحیح اور مسنون طریقہ کیا ہے ؟
جواب: امام کے پیچھے محاذاة میں کھڑے ہوکر تکبیر کہنے کا تعامل ہے اس لئے یہی افضل ہوگا۔ البتہ حسب ضرورت و حسب موقع جس طرف اور جس موقع پر مکبر کھڑا ہو کر تکبیر کہے درست ہے، شرعی ضرورت کے بغیر ادھر ادھر کنارے پر کھڑے ہو کر تکبیر کہنے کی عادت خلاف اولیٰ ہوگی۔ مگر تکبیر قابل اعادہ نہ ہوگی ۔
- ڈال سکتے ہیں ، تاہم بہتر نہیں، تاکہ دوسرے لوگ تشویش میں مبتلا نہ ہوں۔
- بلا عذر بیٹھ کر اقامت کہنا مکروہ ہے اور چونکہ آپ کی مسجد کے مؤذن کھڑے ہو کر اقامت کہہ سکتے ہیں اس لیے وہ کھڑے ہو کر اقامت کہیں بیٹھ کر اقامت کہنا مکروہ ہوگا یا کسی دوسرے کو اجازت دیدیں جو امام کے پیچھے کھڑے ہوکراقامت کہے۔
الدرالمختار(2/75) میں ہے:
ويكره اذان جنب و اقامته واقامة محدث لا اذانه و اذان امراة و فاسق و سكران و قاعد الا اذا اذن لنفسه و راكب الا لمسافر
فتاویٰ ہندیہ(1/115) میں ہے:
و یکرہ الاذان قاعدا وان اذن لنفسه قاعدا فلا باس به
الموسوعۃ الفقہیۃ(6/16) میں ہے:
واتفق الفقهاء على أنه يستحب لمقيم الصلاة أن يقيم واقفا. وتكره الاقامة قاعدا من غير عذر فإن بعذر فلا بأس
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (2/81) میں ہے:
سوال :کسے کہ طاقت در بدن نمیدارد اذان تکیہ دادہ میدہد و تکبیر نشستہ میگوید تکبیر او مکروہ است یا نہ؟
جواب: درمختار میں ہے: ویکرہ اذان جنب و اقامته واقامة محدث لا اذانه واذان امراة و خنثى و فاسق (الي) و قاعد الا اذا اذن لنفسه و راكب الا لمسافر الخ اور یہ بھی در مختار میں ہے والاقامت کالاذان (الخ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اذان بیٹھ کر مکروہ ہے اقامت بھی بلا عذر بیٹھ کر مکروہ ہے اور بوجہ ضعف کے اذان تکیہ دیوار وغیرہ کا لگا کر کھڑے ہونا بلا کراہت درست ہے۔
- ا قامت کہنا اسی کا حق ہے جس نے اذان دی البتہ اگر وہ کسی کو اجازت دیدے تو کوئی اوربھی کہہ سکتا ہے۔
فتاوی ہندیہ (1/115)میں ہے:
واذن رجل و اقام آخر ان غاب الاول جاز من غير كراهة …….. و ان كان حاضرا و يلحقه الوحشة باقامة غيره يكره و ان رضي به لا يكره عندنا كذا في المحيط
البحرالرائق (1/447) میں ہے:
و ان اذن رجل و اقام آخر باذنه لا بأس به وإن لم يرض به الاول يكره و هذا اختيار الامام خواهر زاده………فما ذكره ابن الملك في شرحه من انه لو حضر و لم يرض باقامة غيره يكره اتفاقا فيه نظر. وفى الفتاوى الظهيرية: والافضل ان يكون المقيم هو الموذن
فتاویٰ حقانیہ(3/49) میں ہے:
سوال: اقامت کے لئے مؤذن کا ہونا ضروری ہے یا کوئی اور بھی اقامت کہ سکتا ہے بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ غیر مؤذن کی اقامت کو لوگ اقامت ہی تصور نہیں کرتے ،ایسا کرنا صحیح ہے یا نہیں؟
جواب: بہتر یہی ہے کہ مؤذن اقامت کہے ، اگر موجود نہ ہو تو غیر مؤذن کی اقامت بلا کراہت درست ہے۔اگر مؤذن موجود ہو اور کسی دوسرے کی اقامت کو برا محسوس نہیں کرتا تو اقامت بلا کراہت درست ہے ، اگر برا محسوس کرتا ہے تو مع الکراہیۃ التنزیہیۃ درست ہے ، البتہ اس سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved