• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جھوٹی قسموں کا کفارہ

استفتاء

محترم مفتی  صاحب !

(1)۔میری بڑی خالہ وفات پا گئیں خالو  پہلےہی فوت ہوچکے تھے، خالہ کی کوئی اولاد نہیں تھی             ایک لڑکی لے کر پالی تھی اس کی شادی کردی تھی لڑکی اور سسرال والوں کو لڑکی کے لے پالک ہونے کا علم نہیں تھا۔

خالہ کی وراثت میں ایک مکان لاہور میں اور ایک پلاٹ فیصل آباد کے گاؤں میں تھا ۔خالہ کے فوت ہونے کے بعد ان کے شرعی وارث  ایک بہن اور ایک بھائی تھے ۔چھوٹی خالہ اپنے حق وراثت سے لڑکی کے حق میں دستبردار ہو گئیں جب کہ ماموں نے شرعی  حق کا مطالبہ کر دیا ۔

لڑکی تمام قانونی دستاویزات میں خالہ کی بیٹی تھی، اور مکان کا قبضہ  اور ہر طرح کی دستاویزات  بھی اسی کے علم اور قبضہ میں تھیں۔

میں  نے ماموں کو عدالت سے رجوع کرنے کا کہا مگر انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور لڑکی سے فون پر 12 لاکھ کے بدلے تمام وراثت سے دستبردار ہونے پر رضا مند ہوگئے ۔

وراثت کی قانونی کاروائی کی تکمیل کے لئے دونوں کی رضامندی سے مجھے ذمہ داری سونپی گئی ۔گاؤں سے سرکاری لوگ ماموں اور خالہ سے قانونی کاروائی کی تکمیل کے لئے لاہور آئے اور انہوں نے ماموں کے سائن کروائے انگوٹھے لگوائے ،ان کی ویڈیو اور تصویریں بنائیں ، اور ان سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ کوئی زبردستی تو  نہیں ہوئی ،اور آپ مطمئن ہیں تو مامو ں نے کہا کہ سب ٹھیک ہے۔

لاہور والے مکان کی دستبرداری کے لیے وکیل نے بھی ایسے ہی سوالات کیے،اورکاغذات پردستخط كروائےاور انگوٹھے لگوائے،تصویریں بنائیں ،اور ان کو بارہ لاکھ پورے ادا کیے ،عدالت  میں وراثت کے لیے لڑکی اور میں جج کے سامنے پیش ہوئے، رمضان کا مہینہ تھا اور میں روزے سے تھا مجھ سے حلف لیا گیا کہ اللہ کو حاضر ناظر جان کر جو کہو گے سچ کہو گے اور اگر جھوٹ بولوگے تو گنہگار ہوگے ۔

مجھ سے سوال کیا گیا کہ یہ لڑکی مرحومہ کی  حقیقی بیٹی ہے  ؟میرے ذہن میں یہ تھا کہ معاملہ دونوں فریقوں کے رضامندی سے ہو رہا  ہے اس لیے میں نے کہہ دیا کہ وہ حقیقی بیٹی ہے  اس  طرح تمام وراثت  لڑکی کے نام ہو گئی  ۔

اب ماموں کہتے ہیں کہ اگر  توقانونی کاروائی میں لڑکی کا ساتھ نہ دیتا تو وہ یہ کام خود نہیں کر سکتی تھی اور میں نے بارہ لاکھ  اس لیے لئیے تھے کہ مجھے تمہاری  نیت خراب لگ رہی تھی اس لیے جو مل رہا ہے لے لو۔ حالانکہ میں نے خود ان(ماموں) کو عدالت اپنے حق کے لیے جانے کا کہا تھا اور جب سرکاری  لوگ ان کا بیان لینے آئے اس وقت بھی وہ لڑکی کے لے پالک ہونے کا بیان دے کر اپنا حق حاصل کرسکتے تھے۔ لیکن اب کہتے ہیں کہ قیامت والے دن تمہیں پکڑ وں گا ان کا اس طرح کہنا کیسا ہے ؟

(2)۔دوسری بات یہ  ہے  کہ میں نے جو جھوٹی گواہی دی اس پر بہت ہی کڑہتا رہتا ہوں اس لڑکی کی شادی میں بھی نکاح نامے پر گوا ہوں میں دستخط کیے تھے جب کہ نکاح نامے پر اس کی ولدیت غیر حقیقی تھی اس جھوٹی گواہیو ں کی وجہ سے کافی کبیدہ خاطر رہتا ہوں اور اپنے آپ کو ملامت کرتا رہتا ہوں جہاں تک ماموں کا مزید رقم کا تقاضا ہے وہ  تقاضامیں نے لڑکی کو پہنچا دیا ہے لیکن  وہ اب کچھ دینے پر رضا مند  نہیں ۔

میرے اختیار میں نہ پہلے کچھ تھا نہ اب کچھ ہے  اس مسئلہ میں میں کہاں  کھڑا ہوں اور میری کیا ذمہ داری   ہے اور جوجھوٹ بولا  ہے اس کا کوئی کفارہ ہے ؟                                                     برائے مہربانی جواب دے کر ممنون فرمایں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

  • آپ کے ماموں کا یہ کہنا کہ میں قیامت کے دن تم کو پکڑوں گا درست نہیں کیونکہ انہوں نے بغیر کسی دباؤکے بارہ لاکھ روپے لےلیئے تویوں سمجھا جائےگاگویاماموں نے اپنا حصہ بارہ لاکھ روپے کے عوض لے پالک لڑکی کوبیچ دیا
  • چونکہ آپ نے   جھوٹی قسم اور غلط بیانی کی  ہےاور جھوٹی قسم اور غلط بیانی بہت ہی بڑا گناہ ہے  اس لیے  سچی توبہ اور استغفار  کےعلاوہ اس کا اورکوئی کفارہ نہیں ۔

الدرر المحتار(5/492) میں ہے :

وهي غموس ان حلف علي كاذب كوالله مافعلت  عالما بفعله او كوالله ماله علي الف عالما بخلافه ويأثم بها فتلزمه التوبة

قال ابن عابدين : قوله (فتلزمه التوبة) اذ لاكفارة في الغموس يرتفع  بهاالاثم فتعينت التوبة

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved