• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ کر ایصال ثواب کرنا

استفتاء

حضرت شیخ الحدیث***صاحب رحمہ اللہ فضائل ذکر میں تحریر فرماتے ہیں ”*** فرماتے ہیں میں نے یہ سنا کہ جو ستر ہزار مرتبہ لا إلٰہ إلا اللہ پڑھے اس کو دوزخ کی آگ سے نجات ملے میں نے یہ خبر سن کر ایک نصاب یعنی ستر ہزار کی تعداد اپنی بیوی کے لئے بھی پڑھا اور کئی نصاب خود اپنے لئے پڑھ کر ذخیرہٴ آخرت بنایا۔ ہمارے پاس ایک نوجوان رہتا تھا جس کے متعلق یہ مشہور تھا کہ یہ صاحب کشف ہے مجھے اس کی صحت میں کچھ تردد تھا ایک مرتبہ وہ نوجوان ہمارے ساتھ کھانے میں شریک تھا کہ دفعةً اس نے ایک چیخ ماری اور سانس پھولنے لگا اور کہا کہ میری ماں دوزخ میں جل رہی ہے اس کی حالت مجھے نظر آئی، قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اس کی گھبراہٹ دیکھ رہا تھا مجھے خیال آیا کہ ایک نصاب اس کی ماں کو بخش دوں جس سے اس کی سچائی کا بھی مجھے تجربہ ہو جائے گا چنانچہ میں نے ایک نصاب ان نصابوں میں سے جو اپنے لئے پڑھے تھے اس کی ماں کو بخش دیا میں نے اپنے دل میں چپکے ہی سے بخشا تھا اور میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی مگر وہ نوجوان فوراً کہنے لکا کہ چچا میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس قصہ سے دو فائدے ہوئے ایک تو اس برکت کا جو ستر ہزار کی مقدار پر میں نے سنی تھی اس کا تجربہ ہوا دوسرے اس نوجوان کی سچائی کا یقین ہوگیا اھ (فضائل ذکر: ۸۴-۸۵)

حضرت یہ سوال پوچھنا تھا کہ:

۱. بہت سارے لوگ مل کر تھوڑا تھوڑا ذکر کرلیں اور پھر وہ سب اپنے والدین کو ایصال ثواب کریں کیا ہوجائے گا یا ایک ہی شخص نے ستر ہزار مرتبہ پڑھنا ہے؟

۲. ایک دن میں  لا إلٰہ إلا اللہ کتنی بار پڑھیں میں نے کسی سے سنا کہ زیادہ نہیں پڑھنا چاہیے بلکہ تھوڑا تھوڑا پڑھنا چاہیے آپ تعداد بتادیں کتنی بار پڑھیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ایک بھی کرسکتا ہے اور زیادہ بھی کرسکتے ہیں ، البتہ اس کے لیے باقاعدہ لوگوں کو جمع کرنا اور بلانا ناجائز ہے اور شریعت کی طرف سے  کلمہ پڑھنے کی کوئی تعداد طے نہیں ہے ، اپنی ہمت کے مطابق جتنا ہوسکے پڑھ لیا جائے۔

باقی یہ عمل خود حضورﷺ سے یاصحابہ سے سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔ بعض حضرات سے منقول ہے  اس کواس حد تک ہی رکھنا اور سمجھنا چاہیے۔

يايها الذين امنوا اذكروا الله ذكرا كثيرا [سوة الاحزاب:41]

علامہ قرطبیؒ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:

أمر الله تعالى عباده بأن يذكروه ويشكروه، ويكثروا من ذلك على ما أنعم به عليهم. وجعل تعالى ذلك دون حد ‌لسهولته على العبد الجامع لاحکام القرآن(14/197)

فتاویٰ ہندیہ(1/257) میں ہے:

الأصل في هذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ‌ثواب ‌عمله لغيره صلاة كان أو صوما أو صدقة أو غيرها كالحج وقراءة القرآن والأذكار وزيارة قبور الأنبياء – عليهم الصلاة والسلام – والشهداء والأولياء والصالحين وتكفين الموتى وجميع أنواع البر، كذا في غاية السروجي شرح الهداية

البنایہ فی شرح الہدایہ(4/422) میں ہے:

أن المسلمين يجتمعون في كل ‌عصر ‌وزمان ويقرءون القرآن ويهدون ثوابه لموتاهم. وعلى هذا أهل الصلاح والديانة من كل مذهب من المالكية والشافعية وغيرهم ولا ينكر ذلك منكر فكان إجماعًا

فتاویٰ ہندیہ(5/317) میں ہے:

‌قراءة ‌الكافرون إلى الآخر مع الجمع مكروهة؛ لأنها بدعة لم تنقل عن الصحابة، ولا عن التابعين – رضي الله تعالى عنهم -، كذا في المحيط

فقہی مضامین(ص:157) میں ہے:

  1. ایصال ثواب کے لیے وہ اجتماع جو اہل میت کے پاس ہو خواہ جب بھی  ہو اور کہیں بھی ہو بالاتفاق ناجائز اور مکروہ ہے۔
  2. ایصال ثواب کے لیے وہ اجتماع جو اہل میت کے پاس نہ ہو لیکن اس کے لیے تداعی کی گئی ہو  یہ بھی بالاتفاق ناجائز ہے۔
  3. ایصال ثواب کے لیے وہ اجتماع جو نہ اہل میت کے پاس ہو اور نہ ہی اس کے لیے تداعی کی گئی ہو اس کے جواز میں اختلاف ہے۔

(الف)صاحب سفر السعادۃ نے اس کو ناجائز کہا ہے۔

(ب) دیگر بعض حضرات نے اس کو جائز کہا ہے۔

مرقاۃ المفاتیح(3/222) میں ہے:

ورواه الترمذي قال: هذا حديث غريب) : لا نعرف أحدا أسنده إلا ما روي من هذا الوجه، قال: والعمل على هذا عند أهل العلم، قال النووي: وإسناده ضعيف نقله ميرك، فكان الترمذي ‌يريد ‌تقوية الحديث بعمل أهل العلم، والعلم عند الله تعالى كما قال الشيخ محيي الدين بن العربي: أنه بلغني «عن النبي صلى الله عليه وسلم أن من قال: لا إله إلا الله سبعين ألفا غفر له، ومن قيل له غفر له أيضا» ، فكنت ذكرت التهليلة بالعدد المروي من غير أن أنوي لأحد بالخصوص، بل على الوجه الإجمالي، فحضرت طعاما مع بعض الأصحاب، وفيهم شاب مشهور بالكشف، فإذا هو في أثناء الأكل أظهر البكاء فسألته عن السبب فقال: أرى أمي في العذاب فوهبت في باطني ثواب التهليلة المذكورة لها فضحك وقال: إني أراها الآن في حسن المآب، قال الشيخ: فعرفت صحة الحديث بصحة كشفه، وصحة كشفه بصحة الحديث

نشر الطیب (2/271) میں ہے:

وقال سمعت الشيخ ابا اسحق ابراهيم بن طريف يقول لما حضرت الشيخ ابا الحسن بن غالب الوفاة قال لاصحابه اجتمعوا وهللوا سبعين الف مرة واجعلوا  ثوابها لي فانه بلغنى انها دفاء كل مؤمن من النار فقال: فعملنا عليها وجعلنا ثوابها له ثم حكى عن شيخه ابى زيد القرطبى ما حكاه السنوسى عنه فى اواخر شرح صغراه وقد انكر غير واحد من الحفاظ كابن حجر وغيره كون ما ذكر حديثا ولعل هؤلاء أخذوه من جهة الكشف ونحوه والله تعالى اعلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved