- فتوی نمبر: 27-45
- تاریخ: 15 جون 2022
استفتاء
گذارش ہے کہ بندہ جس گھر میں رہائش پذیر ہے وہ بندہ کا عرصہ50/40 سال قبل سے وراثتی گھر ہے جو بندہ کے دادا، والد سے ہوتا ہوا اب بندہ کی ملکیت وقبضہ میں ہے۔ بندہ کے وراثتی گھر میں کسی بزرگ کی آخری آرام گاہ (قبر) ہے۔ جن کے وارثان کے متعلق بندہ اور اس کے اہلِ خانہ کو کوئی علم نہ ہے۔ بندہ کے والد وبزرگانِ علاقہ سے سائل کو معلوم ہوا کہ یہ قبر پاکستان اور ہندوستان کی آزادی سے قبل کی ہے۔ بندہ کے کے لیے بچوں کی وجہ سے اس قبر کا اور اس کے قریب صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا مشکل ہے، جس کی وجہ سے بندہ اس قبر کو آپ کی رہنمائی سے مرکزی قبرستا ن میں منتقل کرنے کا خواہشمند ہے۔ آپ اس مسئلہ کے متعلق بندہ کی راہنمائی فرماکر بندہ کی دادرسی کریں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ قبر بہت پرانی ہے، اور غالب گمان ہے کہ میت مٹی بن چکی ہوگی اس لیے قبر کو توڑ کر زمین کو ہموار کردینا جائز ہے۔ اس کو منتقل کرنا جائز نہیں۔
تبیین الحقائق(1/246) میں ہے:
ولو بلي الميت وصار تراباً جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه
البحر الرائق(2/341) میں ہے:
وقوله (ولا يخرج من القبر إلا أن تكون الأرض مغصوبة) أي بعد ما أهيل التراب عليه لا يجوز إخراجه لغير ضرورة للنهي الوارد عن نبشه وصرحوا بحرمته
فتاویٰ محمودیہ (15/353) میں ہے:
الجواب: اگر وہ قبرستان مملوکہ زمین ہے اور اس میں قبریں اتنی پرانی ہیں کہ میت ان میں بالکل مٹی بن گئی تو ان قبروں کو توڑ کر زمین کو ہموار کردینا اور وہاں مسجد، مدرسہ، دوکان سب کچھ بنانا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved