• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کھانے کے بعد میٹھا کھانے کا عمل

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا کھانے کے بعد میٹھا کھانا سنت ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ ﷺ کو میٹھا پسند تھا اور آپﷺ کھایا بھی کرتے تھے اور ایک حدیث میں کھانے کے بعد کھجور کا کھانا بھی ثابت ہے لیکن کھانے کے بعد میٹھا کھانے کا معمول ثابت نہیں اور ایک آدھ دفعہ  کے  عمل سے سنت ہونا ثابت نہیں ہوتا  کیونکہ سنت ایسے عمل کو کہتے ہیں جسے معمول بنایا گیا ہوخواہ معمول بطور عبادت کے ہو یا بطور عادت کے ہو۔

التعریفات صفحہ نمبر 88  پر ہے:

"805 – السنة في اللغة: الطريقة، مرضية كانت أو غير مرضية، والعادة۔ وفي الشريعة هي الطريقة المسلوكة في الدين من غير افتراض وجوب، فالسنة: ما واظب النبي عليها مع الترك أحيانا، فإن كانت المواظبة المذكورة على سبيل العبادة فسنن الهدى، وإن كانت على سبيل العادة فسنن الزوائد”

صحیح البخاری، کتاب الاطعمہ ،باب الحلواءوالعسل ،حدیث نمبر: 5431 ہے:

عن عائشة رضي الله عنها، قالت:” كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب الحلواء والعسل”.

ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیز اور شہد پسند فرمایا کرتے تھے۔

اس روایت میں میٹھی چیزپسند کرنے کا تذکرہ ہے لیکن کھانے کے بعد استعمال کرنے کا تذکرہ نہیں ہے۔

جامع الترمذی، ابواب الاطعمۃ، باب ما جاء فی التسمیۃ فی الطعام، حدیث نمبر: 1848ہے:

عن ابيه عكراش بن ذؤيب قال: بعثني بنو مرة بن عبيد بصدقات اموالهم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقدمت عليه المدينة فوجدته جالسا بين المهاجرين والانصار قال: ثم اخذ بيدي فانطلق بي إلى بيت ام سلمة فقال: ” هل من طعام؟  فاتينا بجفنة كثيرة الثريد والوذر واقبلنا ناكل منها فخبطت بيدي من نواحيها واكل رسول الله صلى الله عليه وسلم من بين يديه فقبض بيده اليسرى على يدي اليمنى، ثم قال: ” يا عكراش كل من موضع واحد فإنه طعام واحد "، ثم اتينا بطبق فيه الوان الرطب او من الوان الرطب عبيد الله شك قال: فجعلت آكل من بين يدي وجالت يد رسول الله صلى الله عليه وسلم في الطبق، وقال: ” يا عكراش كل من حيث شئت فإنه غير لون واحد "، ثم اتينا بماء فغسل رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه ومسح ببلل كفيه وجهه وذراعيه وراسه، وقال: ” يا عكراش هذا الوضوء مما غيرت النار "

ترجمہ:عکراش بن ذؤیب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بنو مرہ بن عبید نے اپنی زکاۃ کا مال دے کر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، میں آپ کے پاس مدینہ آیا تو آپ کو مہاجرین اور انصار کے بیچ بیٹھا پایا، پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے ام سلمہ رضی الله عنہا کے گھر لے گئے اور پوچھا: ”کھانے کے لیے کچھ ہے؟“ چنانچہ ایک پیالہ لایا گیا جس میں زیادہ ثرید (شوربا میں ترکی ہوئی روٹی) اور بوٹیاں تھیں، ہم اسے کھانے کے لیے متوجہ ہوئے، میں پیالہ کے کناروں پر اپنا ہاتھ مارنے لگا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سامنے سے کھانے لگے، پھر آپ نے اپنے بائیں ہاتھ سے میرا دایاں ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ”عکراش! ایک جگہ سے کھاؤ اس لیے کہ یہ ایک ہی قسم کا کھانا ہے“، پھر ہمارے پاس ایک طبق لایا گیا جس میں مختلف قسم کی کھجوریں تھیں، میں اپنے سامنے سے کھانے لگا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ طبق میں گھومنے لگا، آپ نے فرمایا: ”عکراش! جہاں سے چاہو کھاؤ، اس لیے کہ یہ ایک قسم کا نہیں ہے“، پھر ہمارے پاس پانی لایا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور ہتھیلیوں کی تری سے چہرے، بازو اور سر پر مسح کیا اور فرمایا: ”عکراش! یہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد کا وضو ہے“

اس روایت میں ایک موقعہ پر کھانے کے بعد کھجور کھانے کا تذکرہ ہے لیکن ہمیشہ کے معمول کا تذکرہ نہیں ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved