- فتوی نمبر: 19-150
- تاریخ: 25 مئی 2024
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم و مکرم جناب حضرت مفتی صاحب مدظلہٗ بندہ ڈاکٹر محمد عبدالشکورنے(1995تا2004)لاہور اپنی میڈیکل کی تعلیم کے دوران اپنے ہاسٹل مسجد کے خطیب حضرت مولانا قاری حکیم محمد عارف رحمۃاللہ (1937-2004)سے دینی تعلیم حاصل کی آپ جامعہ اشرفیہ کے فاضل (1960کی دہائی میں )اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے اردو، اسلامیات،عربی اور فارسی تھے۔ آپ کے اساتذہ میں شیخ الحدیث محمد رسول خان ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ التفسیر حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی ،حضرت فقیہ الامت مفتی محمد جمیل احمد تھانوی ؒ،حضرت الشیخ مفتی محمد حسن ؒجیسے شیوخ ہیں ۔
آپ نےتفسیرقرآن کریم مولانا امام احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی آپ کی پہلی بیعت حضرت الشیخ مولانا عبد القادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ سے،دوسری حضرت مولانا محمد رسول خان ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ سے(خلیفہ مجاز حضرت حکیم الامت رحمۃ اللّٰہ) تیسری حضرت مولانا حکیم عبد الحلیم رحمۃ اللہ علیہ (خلیفہ مجاز حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ)آپ کو حضرت الشیخ امام لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے مبارک سے بالواسطہ خلافت حاصل تھی ۔
مجھےمیرے اپنے اس عظیم استاد گرامی قاری محمد عارف رحمۃاللہ علیہ نے نورانی قاعدہ ،جمال القرآن ،ناظرہ قرآن الکریم ،تقریباً مکمل 7 پارے ،تفسیر قرآن جو آپ مسجد میں درس دیتے تھے ،تجوید کی مشق ،حیاۃ المسلمین اور زادطالبین کتب سبقاً پڑھائیں۔ حضرت استاد صاحب رحمۃاللہ علیہ مجھے ہر جمعۃ المبارک کو حضرت الشیخ مولانا صوفی محمد سرور رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس وعظ میں بھیجتے تھے ،یوں ان سے اصلاحی تعلق نصیب ہوا ۔حضرت استاد گرامی رحمۃ اللہ علیہ مجھے حضرت شیخ المشائخ سیدنا نفیس الحسینی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت حافظ محمد صغیراحمد صاحب (خلیفہ مجاز حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ علیہ )کی خدمت میں سلام و پیغام کے لئے بھیجتے رہے، الحمدللہ ان کے فیوض وبرکات بھی نصیب ہوئے ،اللہ پاک ہمیں ان اساتذہ کرام اور مشائخ کے نقش قدم پر چلائے۔
حضرت استاد گرامی مولانا قاری محمد عارف رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے اپنے علمی سلسلہ قرآن کریم اور حدیث شریف کی سند اجازت سے نوازا ۔الحمدللہ آپ کے وصال کے بعد آپ کے حقیقی بھائی جان حضرت مولانا قاری ڈاکٹر بریگیڈیئر (ر)فیوض الرحمان کی سرپرستی میں آگیا اور آنجناب کی عنایا ت الحمدللہ تادمِ تحریر شامل حال ہیں ۔
حضرت اقدس قاری ڈاکٹر فیوض الرحمن صاحب نے اپنے ایک سوالنامے میں مجھے اپنے روحانی سلاسل اربعہ میں اجازت خلافت عطا فرمائی ہے،فللہ الحمد والمنۃ۔ اللہ پاک قدردانی نصیب کرے اور تادم آخر امانت کی پاسداری نصیب فرمائے آمین۔
میرا ایک دینی شوق اور روحانی مشغلہ سمجھ لیں کہ میرا شوق ہے کہ اپنے پیارے ملک کے بڑے شیوخ التفسیر، شیوخ الحدیث ،مشائخ عظام کی خدمت میں حاضر ہو کر تبرکاًحدیث شریف کا درس لیتا ہوں یا ان کے درس حدیث میں شامل ہوتا ہوں یا خطوط کے ذریعے قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کرتا ہوں ،اسی طرح مشائخ صوفیاء کرام سے اصلاحی خطوط کے ذریعے اپنی دینی دنیاوی اور معاشرتی رہنمائی واصلاح حاصل کرتا ہوں ،ان کی خدمت میں بھی حاضر ہو کر استفادہ کرتا ہوں تاکہ دنیا میں عظیم المرتبت ہستیوں سے شرف شاگردی حاصل ہو ،جو دنیا میں باعث برکت و رحمت واعزاز ہو اور آخرت میں باعث شفاعت ہو انشاءاللہ ۔اللہ پاک کے فضل سے جن محدثین کے نام سے میں وقتا فوقتاً درس حدیث لیتا اور جن مشائخ عظام سے دینی رہنمائی و اصلاح لیتا ہوں وہ میرے عظیم المرتبت اساتذہ کرام کا درجہ رکھتے ہیں۔
اور استاذ گرامی روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے ،اگر میں اپنے اساتذہ کرام سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ جو احادیث مبارکہ آپ نے مجھے پڑھائی ہیں اور جو میں نےحضرت مولانا محمد عارف رحمۃ اللہ علیہ سےپڑھیں ہیں، اپنےعلمی سلسلہ عالیہ میں مجھے اجازت حدیث عطا فرما دیں ۔ا ور مشائخ عظام جن سے میرا اصلاحی تعلق ہے محبت و پیار ہے مناسبت ہے اصلاحی حاضری کا شرف رہتا ہے وہ بھی مجھ سے انس رکھتے ہیں۔
1۔تو کیا ایسے شیو خ حضرات سے میں درخواست کروں کہ تبرکااپنے روحانی سلسلہ مبارک سے اجازت عطا فرما دیں؟ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا علمی برکت اور اعزاز وشرف کے حصول کے لیے میرا ایسی درخواست کرنا علمی و روحانی لحاظ سے غیر اخلاقی اور غیر شرعی اور بے برکتی والا کام ہے؟
- کیا اپنے محبوب اساتذہ اور مشائخ سے ایسی درخواست کرنا اس سوال کرنے کے زمزے میں آتا ہے جس سےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے؟
- کیا وہ شیوخ گرامی جن کی خدمت میں میں نے حاضر ہو کر ایک بھی حدیث شریف پڑھی ہو وہ میرے استاد گرامی کا مقام حاصل کر لیتے ہیں؟
- کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استاد گرامی کو روحانی باپ کا مقام دیا ہے؟
- روحانی باپ کا کیا مطلب ہوتا ہے اور ان کے کیا حقوق ہیں؟
- جیسا کہ روزمرہ کے مسائل آپ معززین اہل علم سے برابر پوچھ پوچھ کر عمل میں لاتا ہوں ،آپ مفتیان کرام بھی تو ایک نسبت سے میرے استاد محترم ہوگئے ۔کیا ایسے ہی ہے؟
آپ سب محترم مفتیان کرام اہل علم اور آپ کے اساتذہ کرام کا بہت شکریہ فجزاکم اللہ وایاھم خیرا
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
- ہمارے دیار میں اس علمی اجازت (جو بالعموم حدیث کی ہوتی ہے) اسے شیخ سے ازخود طلب کرنے کا دستور ہے لیکن یہ اجازت وہی لوگ طلب کرتے ہیں جو علمی اشتغال رکھتے ہیں اورمعتدبہ علوم وفنون حاصل کرچکے ہوتے ہیں جبکہ روحانی اجازت (جو تصوف کی لائن سے ہوتی ہے) وہ کسی شیخ طریقت سےاز خود طلب کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے، اس لیے اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ،اس فرق کی وجہ دونوں اجازت کی نوعیت کا فرق ہے ،علمی اجازت میں برکت کا عنصر غالب ہوتا ہے جب کہ روحانی اجازت میں اعتماد اور مجاز (یعنی اجازت یافتہ) کی کسی نہ کسی درجے میں ذمہ داری اٹھانا ہوتا ہے۔
آپ نے سوال میں اپنے جو کوائف لکھے ہیں ان کی رو سے آپ ان لوگوں میں بھی شامل نہیں جن کے علمی اجازت طلب کرنے کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے۔
- یہ سوال حدیث والے ممنوع سوال سے جدا نوعیت رکھتا ہے۔
- تبرک کے طور پر استاد شمار ہوں گے مگر باضابطہ استادنہ ہوں گے۔
- ہمارے علم میں کوئی ایسی بات نہیں۔
- روحانی باب ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ وہ روح کی غذا بہم پہنچاتا ہے اور روح کی بیماریوں کا علاج کرتا ہے ،ان کا ادب کیا جائے ،ان کو جہاں تک مقدور ہو ایصال ثواب کا اہتمام کیا جائے وغیر ذلک۔
- مفتی سے فتوی پوچھنے کے تعلق کو استاد شاگردی کا تعلق نہیں سمجھا جاتا۔
نوٹ:آپ کے سوالات کے جوابات دیدیے گئے ۔باقی آپ کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ بجائے اس مشغلے کے آپ اپنے شعبے پر توجہ دیں۔اگر علم کی دنیا میں آنا ہے تو پہلے بنیادی استعدادی علوم میں اطمینان بخش مہارت اوررسوخ حاصل کریں
© Copyright 2024, All Rights Reserved