• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’بھردو جھولے میری یامحمد‘‘کہنے کاحکم

استفتاء

گزارش ہے کہ مجھے بتادیں کہ یہ جملہ ’’بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ‘‘شرک میں آتا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

’’بھردے جھولی میری یامحمد‘‘ کہنے میں مندرجہ تفصیل ہے:

1۔اگر اس عقیدے سے ہو کہ آپ ﷺمیری آواز سننے میں اور میری مدد کرنے میں مستقل ہیں یعنی آواز سننے میں اور مدد کرنے میں  وہ الله تعالی کی   اذن ( اجازت ) کے محتاج نہیں تو یہ صریح شرک اور کفر  حقیقی ہے  اور اگر اس عقیدے سے ہو کہ  آواز  سننے میں اور مدد کرنے میں الله تعالی کی اذن (اجازت) کے محتاج ہیں تو یہ شرک اور کفر حقیقی تو نہیں، تاہم الله تعالی کی اجازت سے سننے اور مدد کرنے کی دلیل نہ ہونے کی وجہ سے ایسا عقیدہ رکھنا  معصیت (گناہ) اور جھوٹ اور صورۃ شرک  ہے  ۔

2۔اور اگرمحض شاعرانہ تخیل کے طور پر یہ شعر پڑھا جائے تو پھر اس میں حقیقۃ یا صورتا شرک کی کوئی بات نہیں لیکن چونکہ عوام اس فرق کوملحوظ نہیں رکھتی ،اس لیے مجمع میں اس قسم کےاشعار کہنا درست نہیں۔

چنانچہ امدادالفتاوی5/378  میں ہے:

ایسے خطابات میں تین مرتبے ہیں(1 ) ان کو متصرف بالاستقلال سمجھنا ،یہ تو صریح شرک ہے ۔

(2)متصرف بالاذن اور ان خطابات پر مطلع بالمشیۃ  سمجھنا،یہ شرک تو کسی حال میں نہیں ۔۔۔۔۔۔لیکن بلا دلیل شرعی ایسا اعتقاد رکھنا گو حقیقۃً  شرک نہ ہو مگر معصیت اور کذب حقیقتاًاور شرک صورۃ ہے  ۔۔۔۔۔(3)نہ تصرف کا اعتقاد نہ سماع کا محض ذوق شوق میں مثل خطاب باد صبا کےخطاب کرتا ہے یہ نہ شرک ہے نہ معصیت ہے فی نفسہ جائز ہے جبکہ الفاظ خطاب کے حدشرعی کے اندر ہوں اور کسی عامی کااعتقاد فاسد نہ ہوجاوے کیونکہ جس طرح خود معصیت سے بچنا فرض ہے اسی طرح دوسرے مسلمانوں کو خصوصا عوام کو بچانا فرض ہے پس جہاں عوام کے بگڑجانے کا اندیشہ ہووہاں اجازت نہ ہو گی۔

فتاوی رشیدیہ (ص:180)میں ہے:

سوال: پڑھنا ان اشعار و قصائد کا خواہ عربی ہوں یا غیر عربی جن میں مضمون استعانت و استغاثہ لغیر اللہ تعالیٰ ہوں کیسا ہے اور وہ پڑھنا کبھی بطورورد وظیفہ بہ نیت انجاح حاجت ہوتا ہے اور کبھی بطور نعمت اشعار پڑھے جاتے ہیں ان کے ضمن میں اشعار استمدادیہ التجائیہ بھی پڑھے جاتے ہیں مثلاً یہ شعریا رسول الله انظر حالنایانبی الله اسمع قالنااننی فی بحرهم مغرقخذیدی سهل لنا اشکالنا(۱)یا یہ شعر قصیدہ بردہ کا پڑھنا۔۔۔۔۔

جواب: یہ خود معلوم آپ کو ہے کہ ندا غیر اللہ کو کرنا دور سے شرک حقیقی جب ہوتا ہے کہ ان کو عالم سامع مستقل عقیدہ کرے ورنہ شرک نہیں۔ مثلاً یہ جانے کہ حق تعالیٰ ان کو مطلع فرما دے گا یا باذنہ تعالیٰ انکشاف ان کو ہو جاوے گا یا باذنہ تعالیٰ ملائکہ پہنچا دیویں گے جیسا درود کی نسبت وارد ہے یا محض شوقیہ کہتا ہو محبت میں یا عرض حال محل تحسر و حرمان میں کہ ایسے مواقع ہیں اگرچہ کلمات خطابیہ بولتے ہیں لیکن ہرگز نہ مقصود اسماع ہوتا ہے۔ نہ عقیدہ پس ان ہی اقسام سے کلمات مناجات و اشعار بزرگان کے ہوتے ہیں کہ فی حد ذاتہ نہ شرک نہ معصیت مگر ہاں بوجہ موہم ہونے کے ان کلمات کا مجامع میں کہنا مکروہ ہے کہ عوام کو ضرر ہے اور فی حد ذاتہ ایہام بھی ہے لہٰذا نہ ایسے اشعار کا پڑھنا منع ہے اور نہ اس کے مولف پر طعن ہو سکتا ہے اور کراہت موہوم ہونے کی بوجہ غلبہ حجت کے منجر ہو جاتی ہے مگر اس طرح پڑھنا اور پڑھوانا کہ اندیشہ عوام کا ہو بندہ پسند نہیں کرتا گو اس کو معصیت بھی نہیں کہہ سکتا۔ مگر خلاف مصلحت وقت کے جانتا ہے مگر ہاں جس کلام میں صاف کلمات کفر ہوں اس کو نہ سننا حلال ہے اور نہ سکوت روا ہے اگر قادر نہ ہو تو الگ ہو جاوے اور جو عالم باوجود قدرت کے اس کو رد نہ کرے یہ مداہنت ہوویگی ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved