• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پرانی قبر میں نئی میت دفنانا

  • فتوی نمبر: 29-147
  • تاریخ: 23 جولائی 2023

استفتاء

میری والدہ (جن کو فوت  ہوئے 16 سال ہوگئے ہیں) کی قبر  کو میری خالہ کے لیے دوبارہ استعمال کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں ہم تینوں بھائیوں سے نہ اجازت لی گئی اور نہ بتایا گیا۔ مہربانی فرماکر قرآن وسنت کی روشنی میں اس کا جواب دیں۔

تنقیح:قبرستان میں تھانے کی  طرف سے  یہ بورڈ آویزاں ہے کہ کسی قبر میں تدفین کے لیے ان کے ورثاء سے 100 روپے کے اسٹام پر اجازت نامہ لکھوانا ضروری ہے۔

وضاحت مطلوب ہے: (1) جب قبر کو دوبارہ کھودا گیا تو جسم موجود تھا یا بوسیدہ ہوچکا  تھا؟ (2) قبرستان وقف ہے یا کسی کی ملکیت ہے؟ (3) کیا قبرستان میں کوئی اور جگہ تدفین کے لیے خالی نہیں تھی؟ (4) قریب کوئی اور قبرستان نہیں جہاں تدفین کے لیے جگہ خالی ہو۔

جواب وضاحت: (1)گورکن کا  کہنا  ہے کہ اس نے والدہ کی قبر کے اوپر رکھی گئی سلیب پر ہی نئی قبر بنائی ہے۔ (2)وقف ہے۔ (3)نہیں ۔(4) نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جب قبرستان میں کوئی اور جگہ خالی نہ تھی اور نہ ہی قریب میں کوئی دوسرا قبرستان تھا تو آپ کی والدہ کی قبر کی سلیب پر آپ کی خالہ کی قبر بنانے کے لیے آپ کو بتانا اور اجازت لینا ضروری نہیں تھا۔

توجیہ:اول تو مذکورہ صورت میں آپ کی والدہ کی قبر کو نہیں کھولا گیا بلکہ آپ کی والدہ کی قبر کے  اوپر رکھی گئی سلیب پر قبر بنائی گئی ہے دوسرے اگر آپ کی والدہ کی قبر کھول کر بھی خالہ کو دفنایا جاتا تو اس کے لیے بھی آپ سے یا آپ کی والدہ کے دیگر  ورثاء سے اجازت لینے کی ضرورت نہ تھی البتہ اتنی بات ضروری ہے کہ پہلی میت کے بارے میں غالب گمان یہ ہوکہ اس کا جسم مٹی  بن چکا ہوگا۔

شامی(3/163) میں ہے:

ولا ‌يحفر ‌قبر لدفن آخر إلا إن بلي الأول فلم يبق له عظم إلا أن لا يوجد فتضم عظام الأول ويجعل بينهما حاجز من تراب …………….. وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اهـ. قال في الإمداد: ويخالفه ما في التتارخانية إذا صار الميت ترابا في القبر يكره دفن غيره في قبره لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية ثم دفن غيره فيه تبركا بالجيران الصالحين، ويوجد موضع فارغ يكره ذلك قلت: لكن في هذا مشقة عظيمة، فالأولى إناطة الجواز بالبلى إذ لا يمكن أن يعد لكل ميت قبر لا يدفن فيه غيره، وإن صار الأول ترابا لا سيما في الأمصار الكبيرة الجامعة، وإلا لزم أن تعم القبور السهل والوعر، على أن المنع من الحفر إلى أن يبقى عظم عسر جدا وإن أمكن ذلك لبعض الناس، لكن الكلام في جعله حكما عاما لكل أحد فتأمل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم                

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved