• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد کے اندر تعلیم قرآن پر اجرت اور مدرسہ فنڈ سے ٹیچر کی تنخواہ

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ :

1۔ ایک مسجد کے تحت )ایک غیر رہائشی ) مدرسہ (شعبہ حفظ ) چل رہا ہے، جس کی کلاس (الگ سے مدرسہ کی بلڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے ) مسجد شرعی کے اندر ہی لگائی جاتی ہے، ( ان بچوں کا قیام وطعام ان کے اپنے گھروں میں ہی ہوتا ہے، مدرسہ میں نہیں ۔ ) انتظامیہ مدرسہ نے طے کر رکھا ہے کہ طلباء سے ماہانہ دو ہزار فیس لی جائے، جو تمام طلباء کی طرف سے وصول نہیں ہوتی ، کچھ تو دیتے ہی نہیں، کچھ ایک ہزار، کچھ پانچ سو، کچھ مکمل دو ہزار دےدیتے ہیں۔

مذکورہ تفصیل کے بعد معلوم یہ کرنا ہے کہ حدود مسجد کے اندر بچوں سے فیس لے کر ( متعین تنخواہ والے اساتذہ کا) پڑھانا شرعا کیسا ہے؟ واضح رہے کہ بچوں سے حاصل کردہ فیس مدرسہ کے فنڈ میں ہی جمع کی جاتی ہے، جو کہ (مدرسہ میں آنے ولے دیگر اموال زکوۃ وعطیات وغیرہ کے ساتھ بعد التملیک ) ضروریات و مصالح مدرسہ ( بجلی و گیس کے بل، اساتذہ کی تنخواہوں وغیرہ ) ہی میں خرچ کی جاتی ہے۔

2۔ شعبہ حفظ سے قرآن مجید مکمل حفظ کرنے والے بچوں کے لیے امسال اسکول کا شعبہ بھی شروع کیا گیا ہے، اسکول کی پڑھائی حدود مسجد کے اندر مسجد شرعی کے باہر کی جاتی ہے(جس کا مقصد یہ ہے کہ اس شعبہ کے تحت پڑھنے والے بچے میٹرک کے بعد آگے درس نظامی میں ترجیحی بنیادوں پر اسی مدرسہ میں، یا اُن کی صوابدید پر دیگر مدارس میں چلیں ، اس میں معاشرے کی روش کو دیکھتے ہوئے دونوں امکانات موجود ہیں کہ یہ بچے اُس وقت مدرسہ کی لائن میں ہی چلتے رہیں، یاماحول کے زیر اثر ہوکر اسکول وکالج والی لائن کو ہی اختیار کر لیں۔)اس شعبے میں فی الحال اُن کی قرآن مجید کی دُہرائی، اُن کی تجوید کی کلاس، ابتدائی دینی تربیتی نصاب، اور انگلش میڈیم کے تحت سائنس مضامین پڑھائے جائیں گے، انتظامیہ کی طرف سے ان کے لیے ماہانہ چار ہزار فیس متعین کی گئی ہے، اس شعبہ میں فی الحال صرف چار طلباء ہیں، جو مدرسہ ہذا سے قرآن مجید مکمل کیے ہوئے ہیں، ان چار طلباء میں دو کی طرف سے مکمل چار چار ہزار، اور ایک کی طرف سے دو ہزار وصول ہورہے ہیں ، جبکہ ایک طالب علم کی طرف سے کچھ بھی نہیں وصول ہورہا۔ ان بچوں کے اسکول کے مضامین کی خاطر تین ٹیچرز کا انتظام کیا گیا ہے، جن کی ماہانہ تنخواہ کل تیس ہزار روپے ہے،اب اس صورت میں بچوں کی طرف سے آمد دس ہزار روپے ہورہی ہے، اوربیس ہزار کی کمی کا سامنا ہے، مذکورہ تفصیل کے بعد معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اسکول کے ٹیچر ز کی تنخواہوں  میں بیس ہزار  کی کمی کو مدرسہ کے وقف فنڈ سے پورا کیا جاسکتا ہے؟ یعنی :دس ہزار بچوں سے وصول کی جانے والی فیس اور بیس ہزار مدرسہ کے وقف فنڈ سے لے کر ٹیچر ز کی تنخواہ دی سکتی ہے یا نہیں؟ اسکول ٹیچر کی تنخواہوں کو مدرسہ فنڈ سے ادا کرنا کہیں ” شرط الواقف کنص الشارع“ کے تحت ناجائز تو نہیں؟، کہ مدرسہ میں تعاون کرنے والوں کی اصل غرض تو مدرسہ کا تعاون ہوتا ہے، نہ کہ اسکول کے مصارف کو پورا کرنا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ جب دینی تعلیم کی کوئی متبادل جگہ میسر  نہ ہو تو ضرورت کے وقت حدود مسجد میں تعلیم قرآن اور اس پر اجرت لینے کی گنجائش ہے ۔

۲ بیان کردہ تفصیل کے مطابق مدرسہ کے فنڈ سے اسکول  کے ٹیچرز کی تنخواہ دینا جائز نہیں نیز مسجد کے لیے وقف کی گئی جگہ کو اسکول کی تعلیم کے لیے استعمال کرنا بھی درست نہیں ۔

توجیہ:  مدرسہ کے فنڈ سے اسکول کے اخراجات پورے کرنا اس لیے ناجائز ہے کیونکہ” مدرسہ” کے عنوان سے  جو چندہ مدرسے کو دیا گیا ہے یا دیا جاتا ہے اس کو ایسے علوم کی تعلیم کے اخراجات کے لیے بالواسطہ یا بلاواسطہ خرچ کرنا ضروری ہے جن علوم کا تعلق دین سے ہو، خواہ یہ تعلق بلاواسطہ ہو یا بالواسطہ ہو جیسے منطق و فلسفہ کی تعلیم یا وفاق کے نظام میں متوسطہ کی تعلیم کہ ان علوم کی تعلیم کا تعلق اگرچہ بلاواسطہ تو دین کے ساتھ نہیں لیکن بالواسطہ ان کا تعلق دین کے ساتھ ہے کیونکہ وفاق کے نظام میں متوسطہ کی تعلیم انہی طلباء کو دی جاتی ہے جنہوں نے آگے درس نظامی کرنا ہو گویا یہ دینی علوم حاصل کرنے والے طلباء کو صرف ایک استعدادی تعلیم دینا ہے ۔ ہاں کوئی طالب علم اپنی مرضی سے صرف متوسطہ پڑھ کر چلا جائے اور وہ اپنی تعلیم کو آگے جاری نہ رکھ سکے تو یہ ایک علیحدہ بات ہے ورنہ وفاق کے نظام میں مدرسے میں متوسطہ کی تعلیم کا تعلق بالواسطہ دین کے ساتھ ہی ہے۔

جبکہ مذکورہ صورت میں جو اسکول کا نظام ہے اس کا تعلق بلاواسطہ تو دین کے ساتھ ہے ہی نہیں جبکہ بالواسطہ بھی اس کا تعلق دین کے ساتھ نہیں کیونکہ اس اسکول سے پڑھنے والے طلباء کے لئے یہ لازمی نہیں کہ وہ درس نظامی میں داخلہ لیں لہذا اس اسکول کی تعلیم کو مدرسے کے تابع کہنا اور بالواسطہ اس کا تعلق دین یا دینی تعلیم کے ساتھ سمجھنا درست نہیں۔ باقی دینی تربیت کے لیے کچھ کتابیں داخل نصاب کردینا یا ان کی دینی  تربیت کا کچھ انتظام کرنا اس اسکول کو مدرسے کے تابع بنانے کے لیے کافی نہیں۔ نیز مسجد کے لیے جو زمین وقف کی گئی ہے وہ اصلاً مسجد اور اس سے متعلقہ مصالح کے لیے وقف کی گئی ہیں ، اسکول کا نظام وہاں چلانا مصالح مسجد میں سے نہیں لہذا یہ بھی درست نہیں۔

حاشيہ ابن عابدين (4/ 445)میں ہے:

على أنهم صرحوا بأن ‌مراعاة ‌غرض الواقفين واجبة

حاشيہ ابن عابدين (2/ 269)میں ہے:

الوكيل إنما ‌يستفيد ‌التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره

حاشیہ ابن عابدین مع الدر المختار (6/428) میں ہے:

ويفسق معتاد المرور بجامع … ‌ومن ‌علم ‌الأطفال فيه ويوزر…. (قوله ‌ومن ‌علم ‌الأطفال إلخ) الذي في القنية: أنه يأثم ولا يلزم منه الفسق، ولم ينقل عن أحد القول به، ويمكن أنه بناء على أنه بالإصرار عليه يفسق. أفاده الشارح. قلت: بل في التتارخانية عن العيون جلس معلم أو وراق في المسجد، فإن كان يعلم أو يكتب بأجر يكره إلا لضرورة وفي الخلاصة تعليم الصبيان في المسجد لا بأس به..اه.. لكن استدل في القنية بقوله – عليه الصلاة والسلام – «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم»

بحر الرائق (5/269) ميں ہے:

وفي المجتبى لا يجوز لقيم المسجد أن يبني ‌حوانيت ‌في ‌حد المسجد أو فنائه قيم يبيح فناء المسجد ليتجر فيه القوم أو يضع فيه سررا أجرها ليتجر فيها الناس فلا بأس إذا كان لصلاح المسجد ويعذر المستأجر إن شاء الله تعالى إذا لم يكن ممر العامة، وفناء المسجد ما كان عليه ظلة المسجد إذا لم يكن ممرا لعامة المسلمين

فتاوی عالمگیری(2 / 362)میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعًا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لايجوز، كذا في الغياثية

فتاویٰ شامی( 4/433) میں ہے:

’’شرط الواقف كنص الشارع، أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به‘‘.

حلبی کبیر (1/611) میں ہے:

اما الكاتب ومعلم الصبيان فان كان باجرة يكره وان كان حسبة فقيل  لا يكره والوجه ما قاله ابن الهمام انه يكره التعليم ان لم يكن ضرورة لان نفس التعليم ومراجعة الاطفال لايخلو عما يكره في المسجد مع ما تقدم من الحديث وعلم مما نقدم حرمة السؤال في المسجد لانه كنشدان الضالة والبيع ونحوه وكراهة الاعطا ء لانه يحمل علي السؤال وقيل لا اذا لم يتخط الناس ولم يمر بين يدي مصل والاول احوط….

بزازیہ (1/55) میں ہے:

معلم الصبیان بأجر لو جلس فیه لضرورة الحر لا بأس به، وکذا التعلیم إن بأجر کره إلا للضرورة، وإن حسبة لا….

تاتارخانیہ (66/18) میں ہے:

معلم جلس في المسجد أو ورّاق کتب في المسجد، فإن کان المعلم یعلم بالأجروالورّاق یکتب لغیره، یکره لهما إلا أن یقع لهما الضرورة

فتاویٰ ہندیہ (43/34) میں ہے:

ولو جلس المعلم في المسجد والورّاق يكتب، فان كان المعلم يعلم للحسبة والورّاق يكتب لنفسه فلا باس به لانه قربة وان كان بالاجرة يكره الا ان يقع لهما الضرورة…

فتاویٰ محمودیہ (23/175) میں ہے:

سوال :مسجد میں بچوں کو پڑھانا اس طرح پر کہ بچوں کے لیے کوئی دوسری جگہ ہو پڑھنے کے لیے اور وہ بچے وہاں  پر مستقلاً پڑھتے بھی ہوں …………….. تو اس حالت میں بچوں کو پڑھانا ناجائز ہے یا نہیں ؟ اور جائز کس شکل میں ہے؟

الجواب حامداً ومصلیاً:  دوسری جگہ نہ ہو تو مسجد میں بھی تنخواہ دار مدرس کو تعلیمِ دین دینا درست ہے، جب کہ بچے ہوشیارہوں، پاکی ناپاکی کی تمیز رکھتے ہوں، مسجد کا احترام کرتے ہوں، دوسری جگہ مناسب موجود ہو تو پھر دوسری جگہ ہی تعلیم مناسب ہے۔ ضرورت کی بناء پر دوسری جگہ کو کرائے پر دے دیا ہو تب بھی مسجد میں تعلیم کی اجازت ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔

کفایت المفتی (4/54)میں ہے:

صحن مسجد  اور چبوترہ مسجد میں اسکول یا مدرسہ اسلامیہ قائم کرنا جائز نہیں ہے بلکہ نماز پڑھنےکے علاوہ کوئی کام وہاں کرنا جائز نہیں ہے،جو لوگ اسکول وہاں رکھنےپر مصر ہیں وہ گناہ گار ہیں۔ان کو لازم ہے کہ وہ اسکول دوسرے مکان میں منتقل کردیں۔

فتاوی محمودیہ (23/182)میں ہے:

سوال:۔ مسجدمیں اردو ،ہندی، انگریزی اخبار یاسرکاری اسکولوں کے کورس کی کتابیں پڑھی جاسکتی ہیں یانہیں ؟

الجواب حامداًومصلیاً:غیر دینی تعلیم دینے کا بھی وہاں حق نہیں ہے ۔

خیر الفتاوی (2/753) میں ہے:

چند وجوہ سے مسجد میں اردو تعلیم دینا درست نہیں ……………. 2۔مسجد نماز،تلاوت اور ذکراللہ  کے لیے ہے،دنیوی تعلیم کیلیے نہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved