• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

متولی یا نمازی کا مسجد کا پرانا پنکھا خود لے کر اس کی جگہ نیا پنکھا دینے کا حکم

استفتاء

کیامسجد کا متولی یا کوئی نمازی مسجد کا پرانا پنکھا اپنے گھر میں استعمال کرسکتا ہے جبکہ وہ  اس کی جگہ نیا پنکھا مسجد میں لیکر دیدے ؟مسجد کے بعض پنکھے مسجد کے چندہ سے خرید کر لگائے گئے تھے اور بعض پنکھے نمازیوں نے خود لگوائے تھے، دونوں طرح کے پنکھوں کا حکم بتادیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مسجد کی انتظامیہ کی اجازت سے دونوں طرح کے پنکھے متولی یا کوئی نمازی  لے کر اس کے بدلے میں نئے پنکھے مسجد کو دیدے تو یہ صورت جائز ہے کیونکہ مسجد کو دیا جانے والا چندہ یا پنکھے خود وقف نہیں ہوتے بلکہ وقف کی ملکیت ہوتے ہیں  اور وقف کی ملکیت کی چیز کو وقف کے نفع کے لیے بیچنا جائز ہے۔

تاتارخانیہ (6/266) میں ہے:

متولى المسجد إذا اشترى بمال المسجد حانوتا أو دارا ثم باعها جاز إذا كانت له ولاية الشراء. وفي التنجيس: في الفتاوى: قال الامام حسام الدين هذا هو المختار.

فتح القدیر (7/752) میں ہے:

أما فيما اشتراه المتولي ‌من ‌مستغلات الوقف فإنه يجوز بيعه بلا هذا الشرط، وهذا لأن في صيرورته وقفا خلافا والمختار أنه لا يكون وقفا فللقيم أن يبيعه متى شاء لمصلحة عرضت

فتاویٰ قاضیخان (2/458) میں ہے:

وكذا لو اشترى حشيشا أو قنديلا للمسجد فوقع الاستغناء عنه كان ذلك له إن كان حيا ولوارثه إن كان ميتا وعند أبى يوسف رحمه الله يباع ويصرف ثمنه إلى حوائج المسجد فان استغنى عنه هذا المسجد يحول إلى المسجد الآخر.

المحیط البرہانی (6/ 213)میں ہے:

وفي «مجموع النوازل» : سئل شيخ الإسلام أبو الحسن عن رجل قال: ‌وقفت ‌داري على مسجد كذا، ولم يزد على هذا وسلمها إلى المتولي صح، ولم يشترط التأبيد ولم يجعل آخره للفقراء، قال: وهذا يكون تمليكاً للمسجد وهبة، فيتم بالقبض (52أ3) وإثبات الملك للمسجد على هذا الوجه يصح، فإن المتولي إذا اشترى من غلة دار المسجد يصح، وكذا من أعطى دراهم في عمارة المسجد ونفقة المسجد أو مصالح المسجد يصح، وكذا إذا اشترى المتولي عبداً لخدمة المسجد يصح كل ذلك، فيصح هذا بطريق التمليك بالهبة، وإن كان لا يصح بطريق الوقف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved