• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نشے کی حالت میں دی گئی طلاق

استفتاء

میرے والد نے نشے کی حالت میں میری والدہ کو طلاق کے الفاظ ادا کر دیےہیں،میں اس واقعہ پر موجود تھا  والد نے  شراب پی ہوئی تھی ، کیونکہ وہ اکثر پیتےرہتے ہیں، لیکن بات چیت ٹھیک کر رہے تھے ، گھر آئے تو کسی بات پر لڑائی شروع ہو گئی پھر والد نے والدہ کو اپنا نام لے کر تین طلاقیں دے دیں جس کے الفاظ یہ تھے کہ” میں محمد بوٹا شاہد اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں،  طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں اور یہی بات لکھ کر بھی دے دی۔ تحریر کی تصویر ساتھ لف ہے۔ اب والد مانتے ہی نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ میں نشے میں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے طلاق دی ہی نہیں، نشے میں ہوا ہے جو بھی ہوا ہے۔

ہم چھ بہن بھائی ہیں جن میں سے تین شادی شدہ ہیں اور والدین کی اس عمر میں علیحدگی بہت شرمناک ہے لہٰذا ہم اس مسئلے کا حل ہر صورت چاہتے ہیں کیونکہ ایک بھائی کی عمر 8 سال ہےجسے ماں باپ دونوں کی ضرورت ہے اور والدہ بالکل لا وارث ہیں اس لیے کہیں جا بھی نہیں سکتیں اور والد سے ہم سختی نہیں کر  سکتے۔ برائے مہربانی ہماری شدید پریشانی کو مد نظر رکھتے ہوئے دین اسلام کی رو سے ہماری رہنمائی فرمائیں اور اس مسئلے کا حل تجویز کریں۔

والد کا بیان:

میں نے شراب پی اور گھر آ گیا وہاں ایک بات پر لڑائی شروع  ہوئی بچی کی ایک جگہ شادی  ہوئی تھی تو اس بارے میں سب بچے کہنے لگے کہ ہمیں آپ نے پھنسا دیا ہےتو میں نے کہا کہ سب نے مل کر فیصلہ کیا تھا تو اس پر بات بڑھ گئی۔ پھر معلوم نہیں کہ کیا ہوا۔ صبح بچے کہنے لگے کہ آپ نے طلاق  دے دی ہے اور یہ لکھ کر بھی دی ہے حالانکہ میں حلفاً کہتا ہوں کہ مجھے طلاق دینے کا بالکل علم نہیں ۔

والدہ کا بیان:

میرے شوہر گھر آئے تو انہوں نے شراب پی رکھی تھی۔ ایک بات پر لڑائی شروع ہو گئی وہ بہت گالیاں دینے لگے اور بہت غصے میں آگئے اسی دوران انہوں نے تین دفعہ طلاق دے دی اور لکھ کر بھی دے دیا۔ لڑائی میں باتیں ٹھیک  کر رہے تھے کوئی اول فول بات نہیں ہوئی تھی۔ اب وہ کہتے ہیں کہ مجھے بالکل علم نہیں۔ کیا طلاقیں واقع ہو چکی ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی کا اپنے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں اور چونکہ تین طلاقوں کے بعد صلح یا رجوع کی بھی گنجائش نہیں رہتی  اس لیے بیوی کے لیے اپنےبیان کے مطابق صلح یا رجوع کی بھی  گنجائش نہیں۔

توجیہ : راجح اور مفتی بہ قول کے مطابق  تونشے کی حالت میں زجراً طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ جبکہ احناف میں سے ہی بعض فقہاء کا موقف ہے کہ نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی  لیکن اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ شوہر اس قدر نشے میں ہو کہ اس کو معلوم ہی نہ  ہوکہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے اور اس کی گفتگو میں ہذیان(اول فول بکنا) غالب ہو جبکہ مذکورہ صورت میں بیوی، بیٹے اور خود شوہر کے بیان کے مطابق شوہر کی حالت ایسی نہ تھی لہٰذا  بیوی کے حق میں اس قول کے مطابق بھی تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں اور اب رجوع یا صلح کی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ شوہر چونکہ طلاق دینے سے انکار کر رہا ہے اور اس بات پر حلف اٹھانے کے لیے بھی تیار ہے  اس لیے اس کے حق میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

فتح القدير( 3/ 472)میں ہے:

و في مسئلة طلاق السكران خلاف عال بين التابعين و من بعدهم فقال بوقوعه من التابعين سعيد بن المسيب و عطاء و الحسن البصري و إبراهيم النخعي و ابن سرين و مجاهد و به قال مالك و الثوري و الأوزاعي و الشافعي في الأصح و أحمد في رواية و قال بعدم وقوعه القاسم بن محمد و طاؤوس و ربيعة و الليث و أبو ثور و زفر و هو مختار الكرخي و الطحاوي و محمد  بن سلمة من مشائخنا.

رد المحتار (1/ 74)میں ہے:

مذهب الحنفية المنع عن المرجوح حتی لنفسه لكون المرجوح صار منسوخاً و قيده البيري بالعامي أي الذي لا رأي له يعرف به معنی النصوص حيث قال: هل يجوز للإنسان العمل  بالضعيف من الرواية في حق نفسه نعم إذا كان له رأي، أما إذا كان عامياً فلم أره، لكن مقتضی تقييده بذي الرأي انه لا يجوز للعامي ذلك، قال في خزانة الروايات: العالم الذي يعرف معنی النصوص و الأخبار و هو من أهل الدراية يجوز له أن يعمل عليها و إن كان مخالفاً لمذهبه قلت لکن هذا في غير موضع الضرورة فقد ذكر في حيض البحر في بحث ألوان الدماء أقوالاً ضعيفة ثم قال و في المعراج عن فخر الأئمة: لو أفتی مفت بشئ من هذه الأقوال في مواضع الضرورة طلباً للتيسر كان حسناً.اھ

شامی (3/239) میں ہے:

ان المراد ان يکون غالب کلامه هذيان فلونصفه مستقيمافليس بسکرفيکون حکمه حکم الصحاة في اقراره بالحدود وغيرذلک

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved