• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کیا عدالتی خلع سے نکاح ختم ہوجاتا ہے؟

استفتاء

تنسیخِ نکاح

جامعہ بنوریہ کا ایک فتوی نظر سے گزرا ہے کہ عدالت کی دی گئی خلع، خلع نہیں۔ نیا نکاح زنا ہوگا۔ گزارش ہے کہ عدالتیں خلع دیتی ہی نہیں  ہیں۔آپ بے فکر ہو جائیں عدالتیں نکاح منسوخ کر دیتی ہیں” نہ ڈھولا ہو سی نہ رولا ہو سی”

خلع میں عورت شوہر سے بارگیننگ کر کے طلاق خریدتی ہے، وہ خریدی ہوئی طلاق دینے کے بعد عورت اس شخص سے دوبارہ نکاح نہیں کر سکتی، جب تک کہ نیا گھر بسا لے پھر وہاں سے بیوہ یا مطلقہ ہو کر ہی پہلے سے نکاح کر سکتی ہے لیکن عدالت کی طرف سے نکاح منسوخ  کر دینے کے بعد اگر وہ دونوں بعد میں پھر نکاح کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں جو عدالتیں  قانون کو منسوخ کر سکتی ہیں،  شوہر کا شناختی کارڈ، پاسپورٹ گاڑی کی رجسٹریشن ،اسلحے کا لائسنس، پلاٹ کا انتقال اور رجسٹری  منسوخ کر سکتی ہیں ان کو نکاح منسوخ کرنے کا بھی حق حاصل ہے ورنہ تو پھر شوہر کی آمریت نافذ ہو جائے گی کہ جاؤ میں سونے کا پہاڑ لے کر بھی تجھے طلاق نہیں دوں گا اور بساؤں گا بھی نہیں تو عورت کدھر جائے گی؟  ویسے خلع کے بجائے نکاح ہی منسوخ کرنے کا قانون بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے   ثابت ہے اور خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی گھمنڈی شوہر کا نکاح منسوخ کر دیا کرتے تھے۔

کیا یہ صحیح ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ عبارت میں جو باتیں ذکر کی گئی ہیں  ان میں متعدد غلطیاں ہیں جن کو ہم نمبر وار ذکر کرتے ہیں:

(1) قولہ"عدالتیں خلع دیتی ہی  نہیں ہیں   …… عدالتیں نکاح منسوخ کردیتی  ہیں”

اقول: یہ بات حقیقت سے ناواقفیت  پر مبنی ہے کیونکہ عدالتیں خالی نکاح منسوخ نہیں کرتیں بلکہ خلع کی بنیاد پر نکاح منسوخ کرتی ہیں جیساکہ اکثر وبیشتر فیصلوں میں یہ عبارت درج ہوتی ہے:

“SUIT FOR DISSOLUTION OF MARRIAGE ON THE BASIS OF KHULA”

(2)قولہ"خلع میں عورت شوہر سے  ……    دوبارہ نکاح نہیں کرسکتی”

اقول: یہ بات بھی شرعی احکام سے ناواقفیت کی واضح دلیل ہے کیونکہ خلع سے عموماً ایک بائنہ طلاق ہوتی ہے جس کے بعد فوراً بھی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔

(3) قولہ” جو عدالتیں قانون کو منسوخ کرسکتی ہیں ……. ان کو نکاح منسوخ کرنے کا بھی حق حاصل ہے”

اقول: یہ بات     بھی علی الاطلاق غلط ہے اور نکاح منسوخ کرنے کو قانون منسوخ کرنے پر قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ قانون منسوخ کرنا ایک دنیوی اور قانونی مسئلہ ہے جبکہ  نکاح منسوخ کرنا ایک دینی اور  شرعی مسئلہ ہے اور شرع نے عدالتوں کو نکاح منسوخ کرنے کا کلی اختیار نہیں دیا کہ  وہ شناختی کارڈ کی طرح جب چاہیں اور جس کا چاہیں نکاح مسوخ کردیں بلکہ  عدالتوں کو صرف مخصوص حالات میں نکاح منسوخ کرنے کا اختیار ہے مثلاً شوہر نامرد ہو یا گم ہوگیا ہو وغیرہ وغیرہ اور ان مخصوص حالات میں نکاح منسوخ کرنے کی بھی بہت ساری شرائط ہیں کہ اگر ان کا لحاظ کیے بغیر عدالت نے ان مخصوص حالات میں بھی کسی کا نکاح منسوخ کردیا تو وہ شرعاً منسوخ شمار نہ ہوگا۔

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ عبارت میں جو باتیں ذکر کی گئی ہیں وہ شرعاً درست نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved