• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بیوٹی پارلر کے کاموں کا شرعی حکم

  • فتوی نمبر: 29-393
  • تاریخ: 05 دسمبر 2023

استفتاء

درج  ذیل میں سے کون سے کام حلال ہیں اور کون سے  حرام ہیں؟

(1) ویکس (2)اپر لپس (3)بھنویں بنانا (4) بال کاٹنا (5) میک اپ کرنا (6) مینی کیور(7)  فیشل (8)  فیس وائٹنگ مساج

وضاحت:مینی کیور : ناخنوں کی صفائی کو کہتے ہیں جس میں مختلف  کیمیکلز کے ذریعے ان کی صفائی ، پالش  اور کٹنگ کی جاتی ہے۔

فیشل: چہرے پر مختلف کریموں کے ذریعے صفائی اور مساج ہوتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ ویکس کرنا: ناف کے متصل بعدسے لے کر گھٹنوں سمیت عورتوں کا عورتوں سے بھی پردہ ہے اس جگہ کو دیکھنا اور بغیر کسی حائل کے چھونا جائز نہیں ۔ اس لئے بغیر مجبوری کے تو اس حصے کی ویکس کرنے سے احتراز کیا جائے اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے اس حصے کی ویکس کرنی ہو تو دستانے پہن کر اور حتیٰ الامکان نظر کی حفاظت  کرتے ہوئے  اس کی گنجائش ہے ۔ اس کے علاوہ عورتوں کے لیے عورتوں کےباقی جسم کی بغیر دستانے پہنے بھی ویکس کرنا جائز ہےاور اس کی اجرت لینابھی جائزہے۔

2۔اپر لپس  :  رخساروں اور بالائے لب  مونچھوں  کی جگہ کی تھریڈنگ کرنا جائز ہے۔

3۔بھنویں بنانا جائز نہیں   الا یہ کہ عیب دار ہوجائیں  تو اس حد تک تھریڈنگ کرنا   جائز ہے کہ عیب  دور ہوجائے۔

4۔ عورتوں کے بال کاٹنا: جن عورتوں کے بال خراب ہوگئے ہوں کہ ان کو کاٹے بغیر ان کی درستگی  نہ ہوسکے  مثلا عورتوں کے بالوں کے کناروں کو کاٹے بغیر ان کی بڑھوتری ممکن نہ ہو تو اصلاح کی غرض سے صرف ایک دو پورے بال کاٹنا جائز ہے تاکہ ان کے   بالوں کی درستگی ہوجائے  البتہ ایک دو پوروں سے زائد بال کاٹنا یا فیشنی بال کاٹنا جائز نہیں۔

5۔میک اپ کرنا اور سرخی پاؤڈر لگانا  جائز ہے  بشرطیکہ اس طرح نہ کیا جائے کہ کافر، فاسق عورت کے ساتھ مشابہت ہو۔

6۔جائز ہے۔

7۔جائز ہے۔

8۔چہرے پر  رنگ صاف کرنے کے لیے مساج  کرنا جائز  ہے۔

شامی (1/135) میں ہے:

مطلب: لا بأس للحمامي أن يطلي عورة غيره بالنورة إذا غض بصره حالة الضرورة لا بأس للحمامي أن يطلي عورة غيره بالنورة انتهى لكن قال في الهندية بعد أن نقل عن التاترخانية أن أبا حنيفة كان لا يرى بأسا ‌بنظر ‌الحمامي إلى عورة الرجل، ونقل أنه ما يباح من النظرللرجل من الرجل يباح المس، ونقله عن الهداية ونقل ما نقلناه، لكن قيده بما إذا كان يغص بصره ونقل عن الفقيه أبي الليث أن هذا في حالة الضرورة لا في غيرها، وقال: وينبغي لكل واحد أن يتولى عانته بيده إذا تنور كما في المحيط، فليحفظ.

أقول: ومعنى ينبغي هنا الوجوب كما يظهر، فتأمل

المحيط البرہانی (5/337) میں ہے:

وذكر الفقيه أبو الليث رحمه الله في «فتاويه» في باب الطهارات؛ قال محمد بن مقاتل الرازي: لا بأس بأن يتولى ‌صاحب ‌الحمام ‌عورة إنسان بيده عند التنوير إذا كان يغض بصره كما أنه لا بأس به إذا كان يداوي جرحاً أو قرحاً، قال الفقيه: وهذا في حالة الضرورة لا في غيرها؛ لأن كل موضع لا يجوز النظر إليه لا يجوز مسه، إلا من فوق الثياب، وينبغي لكل أحد أن يتولى عانته بيده إذا تنور، فإنه روي عن النبي عليه السلام كان يتولى ذلك بنفسه

ردالمحتار(5/239) میں ہے:

وفي تبيين المحارم ‌إزالة ‌الشعر ‌من ‌الوجه ‌حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب فلا تحرم إزالته بل تستحب اهـ، وفي التتارخانية عن المضمرات: ولا بأس بأخذ الحاجبين وشعر وجهه ما لم يشبه المخنث اهـ ومثله في المجتبى تأمل

سنن ابی داؤد (2/221) میں ہے:

عن ابن عباس، قال: «‌لعنت ‌الواصلة، والمستوصلة، والنامصة، والمتنمصة، والواشمة، والمستوشمة، من غير داء» قال أبو داود: ” وتفسير الواصلة: التي تصل الشعر بشعر النساء، والمستوصلة: المعمول بها، والنامصة: التي تنقش الحاجب حتى ترقه، والمتنمصة: المعمول بها، والواشمة: التي تجعل الخيلان في وجهها بكحل أو مداد، والمستوشمة: المعمول بها “

فتاوی عالمگیری(5/358) میں ہے:

ولا بأس بأخذ الحاجبين وشعر وجهه ما لم يشبه المخنث اهـ ومثله في المجتبى تأمل

فتاوی عالمگیری(5/358)میں ہے:

ولو حلقت المرأة رأسها فإن فعلت ‌لوجع ‌أصابها لا بأس به وإن فعلت ذلك تشبها بالرجل فهو مكروه كذا في الكبرى

مسائل بہشتی زیور (2317) میں ہے:

دلہن کا بناؤ سنگھار مشاطہ سے اجرت پر کروانا جائز ہے لیکن کام اور مدت  کا ذکر ہونا چاہئے اور اس میں کوئی ایسا کام شامل نہ ہونا چاہئے جو شریعت کی رو سے ناجائز ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved