• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد کے اندر تعلیم قرآن پر اجرت کا حکم

استفتاء

میں ایک مسجد میں امامت کرتا ہوں اور صبح شام بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھاتا ہوں اور انتظامیہ نے وظیفہ مقرر کیا ہے، اب ایک دوست کہتا ہے کہ مسجد میں وظیفہ لے کر بچوں کو پڑھانا جائز نہیں۔

اس پر حضرت تھانوی صاحب رحمہ اللہ کی تحریر دکھائی ہےجو  درج ذیل ہے:

ایسے عملیات کو مسجد میں بیٹھ کر نہ پڑھنا چاہیے اور نہ اس قسم کے تعویذ مسجد میں بیٹھ کر لکھنے  چاہئیں کیونکہ یہ یا تو تجارت ہے اگر تعویذ پر اجرت لی جائے جس کو مسجد سے باہر ہی کرنا چاہیے۔ فقہا نے تصریح کی ہے کہ جو مدرس اور ملا بچوں کو تنخواہ لے کر پڑھاتا ہو اس کو مسجد میں نہ بیٹھنا چاہیے ۔ کیونکہ مسجد میں اجرت کا کام کرنا بیع  وشراء میں داخل ہے۔ اس طرح جو شخص اجرت پر کتابت کرتا ہو یا جو درزی اجرت پر کپڑے سیتا ہو، یہ سب لوگ مسجد میں بیٹھ کر یہ کام نہ کریں۔ قلت الا ان يكون معتكفا فيجوز له ذلك كما هو مقتضي قواعد هم والله اعلم ۱۲ جامع ) اور اگر اپنے لئے عمل پڑھا جائے تو تجارت تو نہیں مگر ہے دنیا کا کام وہ بھی مسجد میں نہ  کرنا چاہیے۔

وضاحت مطلوب ہے: (1) کیا مسجد کی حدود سے باہر کوئی جگہ میسر ہے جہاں بچوں کو ناظرہ کی تعلیم دی جائے؟ (2) کیا انتظامیہ بچوں سے فیس لیتی ہے یا نہیں؟

جواب وضاحت: (1)جی مسجد کی حدود سے باہر ایک کمرہ ہے لیکن گرمی میں مسجد کے صحن میں بیٹھنا  پڑتا ہے۔ (2) انتظامیہ بچوں سے فیس نہیں لیتی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بچوں سے  یا ان کے سرپرستوں سے اجرت نہیں لی جاتی بلکہ لوگوں کے عمومی چندے سے آپ کو اجرت دی جاتی ہے جوکہ رزق القاضی کے بمنزلہ ہے اس لیے آپ پر حضرت تھانویؒ والی بات لاگو نہیں ہوتی۔ اگر تنخواہ بچوں سے یا ان کے سرپرستوں سے (بصورتِ فیس)  لی جائے تو مسجد میں پڑھانا ناجائز ہے الا یہ کہ کوئی خاص مجبوری ہو اور حضرت تھانویؒ کی مراد بھی یہی ہے کہ بچوں سے یا ان کے سرپرستوں سے اجرت (فیس) لیکر مسجد میں پڑھانا جائز نہیں۔

بزازیہ (1/55) میں ہے:

معلم الصبیان بأجر لو جلس فیه لضرورة الحر لا بأس به، وکذا التعلیم إن بأجر کره إلا للضرورة، وإن حسبة لا….

تاتارخانیہ (66/18) میں ہے:

معلم جلس في المسجد أو ورّاق کتب في المسجد، فإن کان المعلم یعلم بالأجروالورّاق یکتب لغیره، یکره لهما إلا أن یقع لهما الضرورة

حاشیہ ابن عابدین مع الدر المختار (6/428) میں ہے:

ويفسق معتاد المرور بجامع … ‌ومن ‌علم ‌الأطفال فيه ويوزر…. (قوله ‌ومن ‌علم ‌الأطفال إلخ) الذي في القنية: أنه يأثم ولا يلزم منه الفسق، ولم ينقل عن أحد القول به، ويمكن أنه بناء على أنه بالإصرار عليه يفسق. أفاده الشارح. قلت: بل في التتارخانية عن العيون جلس معلم أو وراق في المسجد، فإن كان يعلم أو يكتب بأجر يكره إلا لضرورة وفي الخلاصة تعليم الصبيان في المسجد لا بأس به..اه.. لكن استدل في القنية بقوله – عليه الصلاة والسلام – «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم»

فتاویٰ ہندیہ (43/34) میں ہے:

ولو جلس المعلم في المسجد والورّاق يكتب، فان كان المعلم يعلم للحسبة والورّاق يكتب لنفسه فلا باس به لانه قربة وان كان بالاجرة يكره الا ان يقع لهما الضرورة…

تبيين الحقائق (6/ 33) ميں ہے:

«(ورزق القاضي) أي ‌حل ‌رزق ‌القاضي من بيت المال؛ لأن بيت المال أعد لمصالح المسلمين والقاضي محبوس لمصالحهم والحبس من أسباب النفقة فكان رزقه فيه كرزق المقاتلة»

ہندیہ (3/ 329) میں ہے:

«‌القاضي ‌إذا ‌كان ‌يأخذ ‌من بيت المال شيئا لا يكون عاملا بالأجر بل يكون عاملا لله تعالى  ويستوفي حقه من مال الله تعالى – وكذا الفقهاء، والعلماء، والمعلمون الذين يعلمون القرآن»

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved