- فتوی نمبر: 30-259
- تاریخ: 08 اگست 2023
استفتاء
میں عمرہ کے لیے سعودیہ عرب آیا ہوا ہوں یہاں بازار میں "سنابل احد” کمپنی کا "چیز کروسینٹ” (ایک طرح کا"بَن "جس میں پنیر ہوتا ہے) دستیاب ہے جس کے اجزائے ترکیبی کی تصویر آپ کو ارسال کی ہے تو کیا یہ "چیز کروسینٹ "استعمال کرنا جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
"سنابل احد” کمپنی کے’’ چیز کروسینٹ‘‘کے پیکٹ پر جو اجزائے ترکیبی درج ہیں ان میں سے کسی جزکے حرام ہونے پر کوئی قابل اعتبار دلیل نہیں، لہذا جب تک مذکورہ چیز کروسینٹ میں کسی حرام جز کے شامل ہونے کی کوئی قابل اعتبار دلیل سامنے نہیں آتی اس وقت تک اس چیز کروسینٹ کے کھانے کی گنجائش ہے۔
توجیہ:مذکورہ’’ چیز کروسینٹ ‘‘ کے پیکٹ پر12 اجزاء ترکیبی مذکورہیں جن میں سے6 نباتاتی، 3 معدنی اور 3حیوانی ہیں۔ان اجزاء کی تفصیل اور ان كا حکم درج ذیل ہے:
نباتاتی اجزاء:
1۔چینی
2۔ویجیٹیبل فیٹس اور آئل (سبزیوں سے حاصل ہونے والی چکنائی اور تیل )
3۔وائٹل گلوٹین (گندم سے حاصل ہونی والی ایک پروٹین )
4۔گلیسرول مونوسٹیریٹ (نباتات سے بھی حاصل ہوتا ہے اور حیوانات سے بھی البتہ ویکیپیڈیا کے مطابق تجارتی سطح پر نباتات سے حاصل کیا جاتا ہے )
5۔خمیر
6۔گندم کا آٹا
نباتاتی اجزاء کا حکم یہ ہے کہ ان میں سے نشہ آوریامضر اجزاء کے علاوہ سب پاک اور حلال ہیں اور ہماری معلومات کے مطابق مذکورہ اجزاء میں سے کوئی بھی جز نشہ آور اور مضر نہیں ہے لہذایہ سب اجزاء حلال اور پاک ہیں۔
معدنی اجزاء:
7۔پانی
8۔نمک
9۔کیلشیم پروپیونیٹ E282 (کیلشیم ملا ہوا نمک)
معدنی اجزاء کا حکم بھی نباتات والا ہے کہ نشہ آور یا مضر اجزاءکے علاوہ سب حلال اور پاک ہیں ،لہذا یہ اجزا بھی حلال اور پاک ہیں۔
حیوانی اجزاء:
10۔انڈے
11۔چکنائی سے بھرپور دودھ کا پاؤڈر
12۔سفید پنیر
ان کا حکم یہ ہے کہ جن جانوروں کا گوشت حلال ہے ان کا دودھ اور انڈے بھی حلال ہیں ،اورجن جانور وں کا گوشت حلال نہیں ان کا دودھ اور انڈے بھی حلال نہیں، مذکورہ دودھ اور انڈوں کے بارے میں اگر چہ یہ معلوم نہیں کہ یہ حلال جانوروں کے ہیں یا حرام جانوروں کے ، اور چونکہ جانوروں یا ان کے اجزاء میں اصل حرمت ہے اس لئے اصولی طور پر تو جب تک ان کے حلال ہونے کا علم نہ ہو اس وقت تک انہیں حلال نہیں کہا جا سکتا لیکن چونکہ مسلمانوں کے بازار میں عام طور پر حلال جانوروں(گائے،بھینس ،بکری وغیر ہ) کا دودھ اور حلال جانوروں (مرغی وغیرہ) کے انڈے ہی دستیاب ہوتے ہیں حرام جانوروں کے انڈے اور دودھ عموماً دستیاب نہیں ہوتے اس لیے جب تک ان انڈوں اور دودھ کے کسی حرام جانور سے حا صل ہونے کا علم یا غالب گمان نہ ہو اس وقت تک ان اجزاء کو بھی حلال کہا جائے گا ۔
إحياء علوم الدين(2/ 92)میں ہے:
«أما المعادن فهي أجزاء الأرض وجميع ما يخرج منها فلا يحرم أكله إلا من حيث أنه يضر بالآكل….. وأما النبات فلا يحرم منه إلا ما يزيل العقل أو يزيل الحياة أو الصحة»
رد المحتار (10/45)میں ہے:
«وفي الخانية وغيرها: لبن المأكول حلال»
صحیح بخاری (رقم:5507) میں ہے:
عن عائشة رضي الله عنها: «أن قوما قالوا للنبي صلى الله عليه وسلم: إن قوما يأتوننا باللحم لا ندري أذكر اسم الله عليه أم لا، فقال: سموا عليه أنتم وكلوه» قالت: وكانوا حديثي عهد بالكفر
فتح الباری (9/ 635) میں ہے:
«ويستفاد منه أن كل ما يوجد في أسواق المسلمين محمول على الصحة وكذا ما ذبحه أعراب المسلمين لأن الغالب أنهم عرفوا التسمية»
تبیین الحقائق(6/219) میں ہے:
’’ألا ترى أن أسواق المسلمين لا تخلو عن المحرم من مسروق ومغصوب، ومع ذلك يباح التناول اعتمادا على الظاهر‘‘
شرح القسطلانی (4/ 11) میں ہے:
عن عائشة -رضي الله عنها-: "أن قوما قالوا: يا رسول الله إن قوما يأتوننا باللحم لا ندري أذكروا اسم الله عليه أم لا؟ فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: سموا الله عليه وكلوه ……….. قال في فتح الباري: وغرض المصنف هنا بيان ورع الموسوسين كمن يمتنع من أكل الصيد خشية أن يكون الصيد كان لإنسان ثم انفلت منه وكمن يترك شراء ما يحتاج إليه من مجهول لا يدري أماله حرام أم حلال، وليست هناك علامة تدل على الحرمة، وكمن يترك تناول الشيء لخبر ورد فيه متفق على ضعفه وعدم الاحتجاج به ويكون دليل الإباحة قويا وتأويله ممتنع أو مستبعد
بہشتی زیور (ص:604) میں ہے:
’’نباتات سب پاک اور حلال ہیں الا آنکہ مضر یا مسکر ہو۔‘‘
بہشتی زیور (ص:600) میں ہے:
’’جمادات سب پاک اور حلال ہیں الا آنکہ مضر یا نشہ لانے والا ہو۔‘‘
بہشتی زیور (ص:606) میں ہے:
’’جن جانوروں کا گوشت کھانا حرام ہے ان کا دودھ بھی حرام اور نجس ہے اور حلال جانور کا دودھ حلال اور پاک ہے۔‘‘
امداد الفتاوی(96/4)میں ہے:
’’سوال (۲۳۷۴) : جب سے پتہ لگا ہے کہ بعض ولایتی رنگوں میں اسپرٹ کا شبہ ہے اسی وقت سے جب بھی کپڑا پہنتا ہوں تو طبیعت میں شک رہتا ہے کہ یہ کہیں ناپاک نہ ہو، حضرت اقدس ارشاد فرماویں کہ ولایتی رنگ دار کپڑوں مثلاً رنگین گرم کپڑے، رنگین دھاری دار سرد کپڑے، عورتوں کے لئے پختہ رنگ کی رنگین چھینٹیں وغیرہ بلا دھوئے پہننے اور پہن کر نماز پڑھنے میں حرج تو نہیں ہے؟
(۲) حضرت والا یہ بھی ارشاد فرماویں کہ عورتوں کے لئے ولایتی رنگوں سے دوپٹہ وغیرہ رنگ کر پہننے کا کیا حکم ہے؟
الجواب: اول تو خود ان رنگوں میں جزونجس شامل ہونے میں شبہ پھر ان کپڑوں میں ان رنگوں کے شامل ہونے میں شبہ تو کپڑوں کے نجس ہونے کا شبہۃ الشبہہ ہوگیا؛ اس لئے فتوے سے گنجائش ہے باقی اگر کوئی ورع اختیار کرلے اولیٰ واحسن ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved