- فتوی نمبر: 6-319
- تاریخ: 05 اپریل 2014
استفتاء
درج ذیل سوالات کے جوابات بھی مزید خاص احسان فرما کر مہیا فرمائیں:
1۔ اگر مذکورہ بالا مسئلہ اصلی بہشتی زیور از مولانا تھانوی رحمہ اللہ میں نہ ہو تو واضح طور پر آگاہ فرمائیں۔
2۔ نیز آپ کے جواب میں محررہ عربی عبارات کا ترجمہ ملاحظہ فرما کر تصحیح فرما دیں۔
3۔ نہایت معذرت کے ساتھ مزید گذارش یہ ہے کہ آپ کے مذکورہ بالا مسئلہ کے حق و ثبوت میں مزید دو مضبوط حوالہ جات دیگر معتبر کتب سے بھی تلاش فرما کر عنایت فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
- و هنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من المؤكل و قد أمره بالدفع إلی فلان فلا يملك الدفع إلی غيره كما لو أوصی لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلی غيره. فأمل (رد المحتار: 3/4 22)
- و مثله في منحة الخالق علی البحر الرائق:
الوكيل إنما يملك التصرف من المؤكل و قد أمره بالدفع إلی فلان فليس له مخالفته كما في سائر أنواع الوكالة و نظيره لو أوصی بدراهم لفلان و أمر الوصي بأن يدفعها إليه بعد موته ليس له أن يدفعها إلی آخر. (البحر الرائق: 2/ 371)
ترجمہ: (2-1) زکوٰۃ میں وکیل کو زکوٰۃ کے مصرف میں خرچ کرنے کا اختیار موکل کی جانب سے ملتا ہے اور موکل نے وکیل کو حکم دیا ہے کہ وہ زکوٰۃ کی رقم فلاں شخص کو دے تو وکیل کو یہ اختیار نہیں کہ وہ نامزد شخص کے بجائے کسی اور کو دے دے، اس کی مثال یہ مسئلہ ہے کہ میت نے وصی (Manager) کو حکم دیا کہ وہ وصیت کی رقم ***کو دے تو وصی کو اختیار نہیں کہ وہ وصیت کی رقم ***کے بجائے ***کو دے۔
- لو عين للوكيل فقيراً فدفع لغيره لا يضمن و قيل في الزكاة يضمن. (النهر الفائق: 1/ 418)
ترجمہ: زکوٰۃ دینے والے (موکل) نے وکیل کو حکم دیا کہ وہ خاص ***کو زکوٰۃ کی رقم دے اور وکیل بجائے ***کے کسی اور کو دے دے تو اس پر تاوان نہیں آئے گا اور ایک قول یہ ہے وکیل پر تاوان آئے گا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved