• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کا فون پر طلاق دینے سے انکار، فون پر آواز میں اشتباہ

استفتاء

میاں بیوی میں جھگڑا ہوا، بیوی میکے میں تھی، شوہر نے فون کیا کہ اگر تو واپس نہ آئی تو میں تجھے فارغ کر دوں گا بس بات ختم ہو گئی، لیکن بیوی کہتی ہے کہ اس فون کے 15 منٹ بعد مجھے میرے شوہر نے دوبارہ کال کی اور مجھے تین طلاقیں دے دیں، جبکہ شوہر اس کا انکاری ہے، وہ کہتا ہے کہ میں نے دوبارہ کال نہیں کی اور نہ ہی میں نے کبھی اپنی بیوی کے لیے لفظ طلاق استعمال کیا ہے اور دونوں اپنے بیان پر حلف دینے کے لیے تیار ہیں۔ اس میں چند چیزیں قابل غور ہیں ان کو بھی مد نظر رکھا جائے:

1۔ جھگڑے کے بعد لڑکی کا سسر لڑکی کو لینے کے لیے گیا تو وہ برقعہ پہن کر فوراً تیار ہو گئی۔ 2۔ لڑکی اپنے چچا سے کہتی ہے کہ جو آپ نے کہا تھا میں نے وہ پورا کر دیا اب اللہ کے لیے میرا گھر نہ اجاڑیں اور مجھے اپنے گھر  جانے دیں۔ 3۔ لڑکےوالے کہتے ہیں کہ ہمارا کوئی رشتے دار نہیں ہے جس کے سامنے لڑکے نے اقرار کیا ہو طلاق کا، جبکہ وہ گواہ اپنے بیان سے منحرف ہے اور کہتا ہے کہ میرے سامنے لفظ طلاق استعمال نہیں ہوا، اس کا بیان بھی ساتھ چسپاں کر دیا گیا ہے۔ 4۔ اب لڑکی اپنے گھر جانا چاہتی ہے اور بضد ہے لیکن والدین اور رشتے دار رکاوٹ ہیں۔ 5۔ موبائل کمپنی کا ڈیٹا بھی موجود ہے، جس میں دوبارہ کال کا ریکارڈ نہیں ہے۔

ان حالات میں طلاق ہوئی یا نہیں؟

شوہر کا بیان حلفی

میں*** اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنی بیوی کو ٹیلی فون پر صرف یہ الفاظ کہ "اگر تو گھر نہ آئی تو میں تجھے فارغ کر دوں گا”۔ اس کے علاوہ میں نے کبھی اس کو طلاق نہیں دی اور نہ ہی کبھی طلاق کا لفظ استعمال کیا۔ ٹیلی فون ضرور میرا تھا، لیکن بیوی جیسے کہہ رہی ہے میں نے ایسا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا۔

بیوی کا بیان حلفی

میں ***د اللہ کی قسم اٹھا کر یہ کہتی ہوں کہ میرے خاوند جن کا نام ***ہے انہوں نے مجھے فون پہ پہلے یہ کہا کہ "اگر تو گھر نہ آئی تو میں تجھے فارغ کر دوں گا”۔ پھر اس بات کے ٹھیک 15 منٹ بعد اس نے مجھے تین دفعہ کہا کہ "میں نے تجھے

طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی”۔

خالو کا بیان حلفی

میری بیوی اور میں***مجھے تقریباً رات 12 بجے لاہور سے میرے عزیز کا فون آیا اس نے مجھے کہا کہ ***سے فون پر ***کے ساتھ جھگڑا ہوا تو آپ پتہ کریں ، میں اسی وقت***کے گھر گیا اور اس کے بیٹے ***سے بات چیت میں پوچھا کہ بیٹا کوئی گنجائش ہے تو اس نے مجھے جواب دیا کہ انکل نہیں اب کوئی گنجائش نہیں۔

خالووخالہ کا بیان حلفی

4 مارچ رات 12 بجے کر 20 منٹ پر میرے ہم زلف*** کا لاہور سے فون آیا کہ میری بیٹی ***نے کہا ہے کہ مجھے میرے شوہر ***عرف ***نے طلاق دے دی ہے، انہوں نے ہمیں کہا کہ ان کے گھر جا کر تصدیق کرو کہ کیا یہ بات سچ ہے؟ اس وقت  میں *** اور میری بیوی  ان کے گھر گئے اور اس کے ماں باپ سے پوچھا کہ ***کہاں ہے؟ انہوں نے بتایا ***اندر ہے، ہم نے اس کو باہر بلایا اور اس کے ماں باپ کے سامنے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے اس کو فارغ کر دیا ہے یا کوئی گنجائش ہے؟ اس نے اپنے ماں باپ کے سامنے کہا کہ کوئی گنجائش نہیں۔ ہم دونوں میاں بیوی نے یہ بات سات آٹھ بار پوچھی ، ہر بار اس نے کہا کہ کوئی گنجائش نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عورت کا دعویٰ ہے کہ اس کے شوہر نے اس کو ٹیلی فون پر تین دفعہ طلاق کا لفظ کہا ہے، لیکن شوہر اس سے منکر ہے اور کہتا ہے کہ اس نے دوسری مرتبہ فون ہی نہیں کیا، اور اس پر اس نے حلفی بیان بھی دیا ہے۔ چونکہ آوازوں میں مشابہت ہوتی ہے اس لیے شوہر کے اقرار کے بغیر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دوسرا فون شوہر ہی نے کیا تھا۔ عورت کے خالہ و خالو نے جو بات ذکر کی ہے اس میں بھی صراحت کے ساتھ طلاق دینا مذکور نہیں ہے۔  اس لیے مذکورہ صورت میں طلاق نہیں ہوئی۔ البتہ

1۔ شوہر سے مسجد میں قرآن پاک اٹھوا کر اللہ اور قرآن کی قسم لی جائے کہ اس نے کسی صورت میں بھی فون پر طلاق کے الفاظ نہیں کہے۔

2۔ عورت کے لیے شوہر کے ساتھ رہنا صحیح ہے، لیکن اگر شوہر نے غلط بیانی کی اور جھوٹی قسم کھائی تو اس کا وبال اور گناہ شوہر کو ہو گا عورت کو نہ ہو گا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved