• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مرد کی طرف سے نشوز کی وجہ سے خلع، اور ان کا حق مہر واپس کرنے کا مطالبہ

استفتاء

ایک بچی ہے جس کی سات سال قبل شادی ہوئی، بچی حافظہ عالمہ ہے اور جن کے ساتھ نکاح ہوا وہ بھی حافظ اور عالم ہیں اور نکاح کے اندر جو حق مہر طے پایا وہ وہی رہائشی مکان کا آدھا حصہ جس میں وہ رہائش پذیر ہیں اور یہ حق مہر تحریری طور سے طے اور متعین ہے اور اس کے علاوہ سونا ہے، جو شادی کے موقع پر بچی کو پہنایا گیا، سونے کے زیورات کے بارے میں کچھ بھی تحریری طور پر طے نہ تھا، البتہ جب ایک سال سے زیادہ مدت گذرنے پر جب بچی نے سونے کے زیورات کی زکوٰۃ کی ادائیگی کے سلسلے میں اپنے خاوند اور سسر صاحب سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ یہ تمہاری چیز ہے تم خود اس کی ذمہ دار ہو، جیسے مرضی ہے اس کی زکوٰۃ ادا کرو، ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں اور تقریباً 5 سال کا عرصہ ان زیورات پر گذر گیا اور بچی بدستور اپنے خاوند سے زیورات  کی زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں فکر مند کرتی رہی لیکن جب خاوند کی طرف سے بھی زکوٰۃ کی ادائیگی کی صورت نہ بنی تو پھر بچی نے زکوٰۃ کے بقدر سونا فروخت کروا کے 5 سال کی زکوٰۃ ادا کر دی اور خاوند کو ساری صورتِ حال سے آگاہ کر دیا، جس کو انہوں نے قبول کیا۔

اور خاوند کی صورت حال یہ ہے کہ شادی کے ڈیڑھ دو سال بعد جب اولاد نہ ہونے کی صورت میں جب خاوند اور بیوی کے ڈاکٹری چیک اپ کروائے گئے تو اس میں جو خاوند کی رپورٹ جو ڈاکٹروں کے ذریعے آئی وہ یہ تھی کہ خاوند کے اندر تولیدی جراثیم نہیں ہیں، لہذا خاوند کی طرف سے اولاد کا سلسلہ نہیں ہو سکتا، یہ ڈاکٹروں کے تاثرات تھے اور مختلف ڈاکٹروں کی رائے تھی، لیکن اللہ پاک تو سب کچھ کرنے پر قادر ہے، جب یہ صورتحال بچی کے سسرال والوں کے سامنے آئی کہ ہمارا بچہ تو نسل کو آگے نہیں بڑھا سکتا اور بیٹے یا بیٹی کی کوئی بظاہر امید نہیں ہے تو انہوں نے اس مسئلے کو ختم کرنے کی کوشش شروع کی اور بچی کو مختلف طریقوں سے تنگ کرنا شروع کرنا اور ستانا شروع کر دیا اور سسر صاحب کا بچی سے از خود طلاق کے مسئلہ پر گفتگو کرنا اور بچی کو اس طرح کہنا کہ تم ساری زندگی بغیر اولاد کے اور اکیلا رہنے کے لیے خود کو تیار کرو اور تمہیں اپنے بھائیوں میں سے کسی کا بچہ گود لینے کی اجازت نہیں ہے اور پھر بچی کی نندوں کا واضح طور پر اس سے اپنے گھر واپس جانے پر اصرار کرنا اور پھر گھر میں سات آٹھ کمروں کے ہوتے ہوئے اسی بچی کے کمرے سے ایک دفعہ زندہ سانپ اور ایک دفعہ مردہ سانپ کا برآمد ہونا، پھر اس کے ساتھ ساتھ خاوند کا بچی کے ساتھ جنسی تشدد کا مرتکب ہونا اور تمام حربوں کی ناکامی کے بعد اب  یہ چار سال سے مسلسل جادو اور تعویذات کے ذریعے بچی کو تکلیف دیتا ہے، جس کی وجہ سے بچی کے ہر مہینے کے دس سے پندرہ دن انتہائی تکلیف اور کرب کی حالت میں گذرتے ہیں جس کی وجہ سے بچی کے سارے گھر والے بہن بھائی والدین انتہائی تکلیف اور پریشانی کی حالت میں ہیں، اور پھر آخر میں خاوند کی طرف سے خود کشی کی کوشش جس کے بارے میں اب وہ یہ کہتا ہے میں نے تو یہ سب مذاق کیا تھا اور اس خود کشی والی بات سے بچی اس حد تک ڈر گئی ہے کہ اب وہ سسرال جانے کے نام سے کانپ جاتی ہے۔

اس ساری صورت حال کی وجہ سے اب بچی کے گھر والے خلع لینا چاہتے ہیں، جب یہ بات بچی کے سسرال والوں سے کی گئی تو وہ کہتے ہیں کہ بچی کے پاس خاوند کا جو کچھ ہے مکان ہے جو کہ حق مہر تھا اور اس کے علاوہ جو سونا وغیرہ ہے وہ سب واپس کر دیں تو پھر طلاق دیں گے۔ تو سوال طلب امر یہ ہے کہ  کیا خلع کی صورت میں بیوی پر لازم ہے کہ وہ حق مہر چھوڑے اور جو سونا ہے اس کے بارے میں شرعی طور پر کیا صورت بنتی ہے؟ اس میں سے جو زکوٰۃ کی مد میں دیا گیا ہے یا بیچا گیا ہے اور جو باقی ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور جو بچی نے 6 سال اپنے سسرال میں انتہائی تکلیف اور کرب کی حالت میں گذارے اس کا کوئی عوض ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ لڑکے سے خلع لے سکتے ہیں، اس کے لیے اگر وہ مکان اور زیورات کی واپسی کا مطالبہ رکھیں اور اس کے بغیر خلع یا طلاق دینے پر آمادہ نہ ہوں تو آپ یہ چیزیں انہیں دے سکتے ہیں، البتہ اگر خرابی لڑکے کی جانب سے ہے تو لڑکے کے لیے  ان چیزوں کا لینا اور انہیں استعمال کرنا جائز نہیں ہو گا، بلکہ حرام ہو گا۔

  1. هو إزالة ملك النكاح المتوقفة علی قبولها بلفظ الخلع و لا بأس به عند الحاجة بما يصلح للمهر. (رد المحتار: 5/ 87)
  2. و إذا تشاق الزوجان و خافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به … و لزمها المال. (فتح القدير: 4/ 188)
  3. إن جميلة بنت سلول كانت تحت ثابت بن قيس فجاءت إلی رسول الله ﷺ ….. فقال رسو الله ﷺ أ تردين إليه حديقته فقالت نعم و زيادة فقال ﷺ أما الزيادة فلا. (فتح القدير: 5/ 193)
  4. و الحق أن الأخذ إذا كان النشوز منه حرام قطعاً لقوله تعالی "فلا تأخذ منه شيئاً” إلا أنه إن أخذه ملكه بسبب خبيث و تمامه في الفتح. (رد المحتار: 5/ 95) فقط و الله تعالی أعلم
Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved