- فتوی نمبر: 6-391
- تاریخ: 14 جون 2014
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
شوہر کا بیان (1)
میرا نکاح میرے والدین نے اپنی پسند اور رضا مندی کے بعد میری رضا مندی لے کر افشین اقبال سے 2001ء میں کیا، جس سے میرے تین بچے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں، میں اپنےوالدین کا اکلوتا بیٹا ہوں اور میری تین بہنیں ہیں، جن کی شادیاں ہو چکی ہیں، ہمارے گھر میں آسائشیں تو بہت تھیں لیکن بے سکونی بھی بہت تھی، کیونکہ والد صاحب اور والدہ صاحبہ کی ہر وقت کی لڑائی تھی اور والد صاحب تقریباً ہر لڑائی میں والدہ کو طلاق دے دیتے تھے، لیکن بعد میں صلح صفائی ہو جاتی، میں نے ایسے ماحول میں ہی پرورش پائی مجھے دنیا داری تو بہت سکھائی گئی، لیکن دین و شریعت کی الف ب بھی نہ پڑھائی گئی۔
میری شادی کے بعد میری بہنیں اور والدہ محترمہ میری بیوی کو ناپسند کرنے لگیں اور مجھے اس کو طلاق دینے کی ترغیب دینے لگیں، لیکن میں اپنی بیوی کو طلاق نہیں دینا چاہتا تھا، میری بہنوں اور والدہ نے میری بیوی سے قطع تعلق کر لیا اور مجھ سے صاف کہہ دیا کہ اگر ہم سے ملنا ہو تو اس کو ساتھ نہیں لے کر آنا، 2010ء میں میری بہن والد صاحب کو ملنے گھر آئی تو اس کی میری بیوی سے تلخ کلامی ہوگئی اور دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئیں، میرے والد صاحب شور سن کر میرے کمرے میں چلے گئے اور دونوں کو لڑتے دیکھ کر جذباتی ہو گئے اور میری بیوی کی میری بہن کے ساتھ مل کر پٹائی کر دی، میں گھر میں موجود نہیں تھا، جب مجھے فون پر اطلاع ملی تو میں نے واپس آ کر صلح کروانے کی بہت کوشش کی لیکن میرے والد صاحب اور بہن نے مجھے کھڑے کھڑے میری بیوی کو طلاق دینے کے لیے کہا، لیکن میں نے صاف انکار کر دیا اور گرما گرمی ختم کرنے کے لیے بیوی کو بچوں کے ساتھ ڈرائیور کے ذریعے اس کے والدین کے گھر بھجوا دیا۔
بیوی کے گھر والے بھی ناراض تھے وہ اس کو واپس والد صاحب کے گھر بھیجنے کے لیے رضا مند نہ تھے اور علیحدہ رہائش کی شرط کرنے لگے، کچھ ماہ تک جب بیوی واپس نہ آئی تو میں نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو دھمکانے کے لیے یونین کونسل کے ذریعے طلاق کا نوٹس بھجوا دیا، یہ نوٹس میں نے اپنے منشی کو بھیج کر ایک وکیل سے بنوایا تھا، اور اس میں لکھے گئے (Three times) کے الفاظ پر غور نہیں کیا تھا، میرے گھر والے اور بیوی کے گھر والے دونوں ہی صلح نہیں کرنا چاہتے تھے، اس لیے اس تمام عرصہ میں میرا بیوی سے کوئی رابطہ نہ رہا، اور تین ماہ بغیر کسی مصالحت کے گذر گئے اور ثالثی کمیٹی کی ناکامی کی وجہ سے طلاق کا سرٹیفیکیٹ جاری ہو گیا، کچھ عرصہ بعد میرا افشین سے بچوں کے لیے رابطہ ہوا تو ہم دونوں ہی پشیمان تھے اور ساتھ رہنا چاہتے تھے، جب ہم نے رجوع کی کوششیں کی تو والدہ اور بہنوں نے اعتراض کیا کہ ہم لوگ حنفی دیوبندی فقہ کو مانتے ہیں اور اس کے مطابق تم تب تک افشین سے نکاح نہیں کر سکتے جب تک وہ کسی اور سے نکاح کر کے طلاق لے، میں نے اس سلسلہ میں اہلحدیث مفتی ساجد شہباز خان صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے فتویٰ دیا کہ آپ کی ایک طلاق واقع ہو گئی ہے لہذا آپ کو افشین سے دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا، اور جو غلطیاں آپ نے لا علمی میں کی ہیں ان کے لیے توبہ اور کفارہ کو تجویز کیا، لیکن میری ایک بہن کسی مدرسہ سے ایک فتویٰ میرے سے پوچھے بغیر لے آئی ہے اور مجھے سے افشین سے دوبارہ نکاح کرنے پر قطع تعلق کرنے کی دھمکی دے رہی ہے۔
آپ سے گذارش ہے کہ شریعت کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں اور درج سوالوں کے جواب بھی دے دیں، آپ کا بہت احسان مند ہوں گا:
1۔ کیا جان بوجھ کر اور انجانے میں کیے ہوئے گناہ کو سزا ایک ہی ہو گی؟
2۔ اگر کسی شخص کو گن پوائنٹ پر جان سے مار دینے کی دھمکی دے کر طلاق کے کاغذات پر دستخط لیے جائیں تو کیا ایسی طلاق واقع ہو جاتی ہے؟
3۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن پاک میں طلاق دینے کا ایک طریقہ ہم انسانوں کو بتا دیا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے؟ جبکہ طلاق دینے والا قرآن اور شریعت سے بالکل لا علم ہو؟
4۔ غیر شرعی طریقہ سے طلاق دینے کا مداوا حلالہ شرعی کیسے ہو سکتا ہے؟
5۔ میں بہت پریشانی کا شکار ہوں، اگر اللہ کی شریعت میں ہم گناہ گاروں کے لیے کوئی رستہ ہے تو ضرور مدد فرمایے؟
بیان (2)
2001ء میں میرا نکاح ہوا تھا، اور میرے تین بچے ہیں، 2010ء میں بیوی ناراض ہو کر اپنے والدین کے گھر چلی گئی، میرے بہت سمجھانے پر بھی جب وہ سات ماہ تک واپس نہ آئی تو صرف اس کو دھمکانے کے لیے میں نے بذریعہ یونین کونسل اس کو طلاق کا نوٹس بھجوایا، بیوی کے گھر والے صلح نہیں کرنا چاہتے تھے، اس لیے تین ماہ بغیر کسی مصالحت کے اور رابطہ کے گذر گئے اور طلاق بائن ہو گئی، جب میرا بیوی سے بچوں کے سلسلے میں رابطہ ہوا تو ہم دونوں ہی پشیمان تھے، رجوع کی کوششیں شروع کی تو علم ہوا کہ ہم دونوں ہی شریعت سے لا علم تھے، اور میں نے لا علمی میں نکاح کے شروع کے سالوں میں دو مرتبہ اپنی بیوی کو غصہ کی حالت میں بغیر سوچے سمجھے زبانی طلاق کے الفاظ بولے تھے، ان دونوں مرتبہ میں نے نہ تو طلاق کا ارادہ کیا تھا اور نہ ہی اس پر قیام کیا تھا، میرا یہ سارا بیان حلفی ہے۔ اللہ کی شریعت ہمارے لیے سب سے زیادہ مقدم ہے اسی لیے آپ شریعت کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں کہ کیا میرے پاس تجدید نکاح کی گنجائش موجود ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ہمارے سامنے شوہر کے دو بیان ہیں، ایک طویل اور دوسرا مختصر۔ طویل بیان کے ساتھ طلاق نامہ منسلک ہے جس میں تین طلاق کا ذکر ہے اگر شوہر نے زبانی طلاق نہ دی ہوتی تب بھی تین طلاقیں ہو جاتیں، باقی رہا یہ مسئلہ کہ اکٹھی تین طلاق دی جائیں تو تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں یہ صرف حنفیہ کا قول نہیں ہے بلکہ تمام اہل علم صحابہ رضی اللہ عنہم کا اور مجتہدین اور محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک نشست میں تین طلاقیں دینے سے تین ہی پڑتی ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے:
عن مجاهد قال كنت عند ابن عباس رضي الله عنه فجاءه رجل فقال إنه طلق امرأته ثلاثاً فسكت حتی ظننت أنه سيردها إليه فقال ينطلق أحدكم فيركب الأحموقة ثم يقول يا ابن عباس يا ابن عباس يا ابن عباس إن الله قال و من يتق الله يجعل له مخرجاً و انك لم تتق الله فلا أجد لك مخرجاً عصيت ربك و بانت منك امرأتك. (أبو داؤد)
مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس (بیٹھا) تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو (اکٹھی) تین طلاقیں دے دی ہیں تو (کیاکوئی گنجائش ہے؟ اس پر) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اتنی دیر تک خاموش رہے کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ (حضرت کوئی صورت سوچ کر) اسے اس کی بیوی واپس دلا دیں گے، پھر انہوں نے فرمایا: تم میں سے ایک شروع ہوتا ہے تو حماقت پر سوار ہو جاتا ہے (اور تین طلاقیں دے بیٹھتا ہے) پھر آ کر کہتا ہے اے ابن عباس! اے ابن عباس! اے ابن عباس! (کوئی راہ نکالیے) کی دہائی دینے لگتا ہے اللہ کا فرمان ہے: ” و من يتق الله يجعل له مخرجاً ” (جو کوئی اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی راہ نکالتے ہیں) تم نے تو اللہ سے خوف نہیں کیا (اور تم نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں جو کہ گناہ کی بات ہے) تو میں تمہارے لیے کوئی راہ نہیں پاتا (اکٹھی تینوں طلاقیں دے کر) تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہو گئی۔
عن نافع عن ابن عمر قال … أ ما أنت طلقتها ثلاثاً فقد عصيت ربك فيما أمر من طلاق امرأتك و بانت منك. (مسلم)
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے (اکٹھی تین طلاق دینے والے سے) کہا تم نے اپنی بیوی کو (اکٹھی) تین طلاقیں دی ہیں تو بیوی طلاق دینے کے بارے میں جو تمہارے رب کا حکم (یعنی بتایا ہوا طریقہ) ہے اس میں تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور تمہاری بیوی تم سے (طلاق مغلظ کے ساتھ) جدا ہو گئی۔
أن رجلاً من أهل البادية طلق امرأته ثلاثاً قبل أن يدخل بها … فقال أبو هريرة الواحدة تبينها و الثلاث تحرمها حتي تنكح زوجاً غيره و قال ابن عباس مثل ذلك. (مؤطأ مالك)
اہل بادیہ میں سے ایک شخص نے اپنی بیوی کو رخصتی سے پہلے ہی (اکٹھی) تین طلاقیں دے دیں ۔۔۔۔ مسئلہ پوچھنے پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے (جواب میں) فرمایا ایک طلاق دی تو اس سے جس عورت کی رخصتی نہ ہوئی ہو نکاح سے نکل جاتی ہے اور تین طلاقیں (اکٹھی) دی ہو (یعنی یوں کہا کہ تجھ کو تین طلاق) تو یہ اس عورت کو حرام کر دیتی ہیں یہاں تک کہ وہ دوسرے شخص سے نکاح کرے۔
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ ایک ہی مجلس میں خواہ اکٹھی تین طلاقیں یکبارگی دیدے یا ایک ایک کر کے دے تینوں طلاقیں ہو جاتی ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ "ثلاث جدهن جد و هزلهن جد النكاح و الطلاق و الرجعة” طلاق ان چیزوں میں سے ایک ہے۔ چنانچہ طلاق کے الفاظ طلاق دینے کی نیت سے کہے جائیں یا طلاق دینے کی نیت کے بغیر کہے جائیں دونوں صورتوں میں طلاق ہو جاتی ہے۔
قرآن پاک میں طلاق دینے کے مستحب دو طریقے ہیں:
I۔ آدمی صرف ایک دفعہ طلاق دے اور عدت گذرنے دے۔ اگر شوہر نے رجوع نہ کیا اور عدت کی مدت پوری ہو گئی ہو تو اب نکاح ختم ہو جائے گا اور عورت کو اختیار ہو گا کہ چاہے تو کسی اور مرد سے نکاح کر لے اور چاہے تو اسی سابقہ شوہر سے نکاح کر لے۔
ii۔ دوسرا مستحب طریقہ یہ ہے کہ آدمی ہر طہارت میں ایک طلاق دے ، جب تین ماہواریاں پوری ہوں گی تو عدت مکمل ہو جائے گی اور عورت آزاد ہو گی کہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کر لے۔
ہم اس بات کو مان بھی لیں کہ قرآن پاک کے الفاظ "الطلاق مرتان” میں طلاق دینے کا طریقہ لکھا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کوئی اس طریقے سے ہٹ کر تین طلاقوں کو اسی ایک نشست میں دیدے تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟ اس صورت کا ذکر قرآن پاک میں تو ہے ہی نہیں، البتہ مستحب طریقے کو چھوڑ کر غیر پسندیدہ طریقے کو اختیار کرنا یعنی تین طلاقیں ایک نشست میں دینا گناہ کا طریقہ ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ تین طلاقوں کو ایک مانا جائے تعجب کی بات ہے۔
2۔ جان سے مار دینے کی دھمکی دے کر طلاق کے کاغذات پر شوہر سے دستخط کرائے ہوں تو طلاق نہ ہو گی۔ کیونکہ تحریری طلاق زبانی طلاق کے ضرورتاً قائم مقام ہوتی ہے۔
3۔ مسلمانوں کے ملک میں رہتے ہوئے یہ کوئی عذر نہیں کہ ہمیں علم نہ تھا۔
4۔ حلالہ کا آپ سے کس نے ذکر کیا ہے؟ اس کے پیچھے مت لگیے۔
یہ تو شوہر کے تفصیلی بیان کی روشنی میں بات تھی، باقی رہی مختصر بیان تو اس میں شوہر نے خود لکھا ہے کہ میں نے لا علمی میں نکاح کے شروع کے سالوں میں دو مرتبہ اپنی بیوی کو غصہ کی حالت میں بغیر سوچے سمجھے زبانی "طلاق، طلاق” کے الفاظ بولے تھے، اس کی رُو سے بھی تین طلاقیں ہو گئیں، دو دفعہ پہلے دو طلاقیں ہوئیں پھر طلاقنامہ لکھایا لکھوایا، اس میں تین دفعہ کا ذکر ہے، پہلی دو طلاقوں کے ساتھ طلاقنامہ کی ایک طلاق مل کر تین ہو جاتی ہیں۔
غرض دونوں طرح سے تین طلاقیں واقع ہوئیں جن میں نہ رجوع ہے اور نہ ہی تجدید نکاح ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved