• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مدت پوری ہونے سے پہلے اجارہ ختم کرنے کا حکم

  • فتوی نمبر: 9-349
  • تاریخ: 08 مارچ 2017

استفتاء

ایک صورت حال آج کل کثیر الوقوع ہے کہ اجارے کا معاہدہ ہو جانے کے بعد طے شدہ مدت ختم ہونے سے پہلے ہی اجارہ ختم کر دیا جاتا ہے۔ اس صورت میں اجرت/ کرایہ/  فیس وغیرہ کا مسئلہ پیش آتا ہے۔ مثلاً

1۔ الف: اگر کسی سکول نے اپنے طلباء سے ایڈوانس سالانہ فیس وصول کر لی ہو، لیکن درمیان سال مثلاً 4 مہینے بعد کوئی طالب علم بتا  کر یا بغیر بتائے سکول چھوڑ کر چلا جائے تو کیا چار مہینوں کے علاوہ بقیہ فیس بھی سکول کی ملکیت ہے؟ یا طالب علم کو واپس کرنا ہو گی؟

ب: اگر کسی سکول نے اپنے طلباء سے ماہانہ ٹیوشن فیس لے لی ہو، لیکن کوئی طالب علم دس دن بعد چھوڑ کر چلا جائے، تو بقیہ ٹیوشن فیس کس کا حق ہے؟

2۔ الف: اگر کسی شخص نے گھر کرایہ پر لیا ہو، اور ہمارے عرف کے مطابق اس کا ماہانہ کرایہ پہلے ہی ادا کرتا ہو، لیکن مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی پانچ تاریخ کو کرایہ دار کسی مجبوری (مثلاً بیمار والدہ کی خدمت کے لیے ان کے پاس منتقلی، ملازمت کی ٹرانسفر) سے گھر چھوڑ دے تو کیا وہ پانچ دن کے علاوہ بقایا رقم واپس مانگنے کا استحقاق رکھتا ہے؟

ب: اگر کسی شخص نے گھر کرایہ پر لے کر ایک سال کا کرایہ ایڈوانس دے دیا ہو، لیکن مثلاً 5 مہینے کے بعد کسی مجبور (مثلاً کاروبار کی منتقلی، بچوں کی تعلیم) سے گھر چھوڑ کر چلا جائے، تو باقی ایام کا کرایہ مالک مکان کا ہی ہو گا یا کرایہ دار اس کا استحقاق رکھتا ہے؟

ان مسائل میں دو رائے پائی جا رہی ہیں:

پہلی: اجارہ ساعۃً فساعۃً منعقد ہوتا ہے۔ نیز عذر کی وجہ سے قابل فسخ ہوتا ہے، لہذا بقایا مدت کی وصول شدہ ایڈوانس رقم شرعاً واپس کرنا ضروری ہے۔

دوسری: جب مدت معاہدہ میں تخلیہ پایا گیا تو کل مدت کی کل رقم ہی واجب الاداء ہو گی۔

براہ کرم مدلل وباحوالہ جواب دے کر تشفی فرمائی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ذکر کردہ مسائل کے بارے میں جو دورائے ذکر کی گئی ہیں ان دونوں آراء میں تھوڑاتھوڑا سقم ہے کیونکہ مذکورہ مسائل میں نہ تو علی الاطلاق بقیہ مدت کا کرایہ واپس ہوگا اور نہ ہی علی الاطلاق کرایہ دار کے ذمہ کل مدت کا کرایہ واجب الاداءہوگا بلکہ مذکورہ مسائل میں مندرجہ ذیل تفصیل ہوگی ۔

1۔ الف: اگرتو یہ اجارہ ماہانہ ہے تو بقیہ مہینوں کی فیس ویسے ہی واپس کرنی ہوگی کیونکہ بقیہ مدت کے اجارے کا انعقاد ہی نہیں ہوا۔ اور اگر اجارہ سالانہ ہے تو پھردیکھیں گے کہ طالب علم کا اسکول چھوڑکر چلے جانا اگرکسی ایسے عذر کی وجہ سے ہو جو شرعا معتبر ہو تو بقیہ مہینوں کی فیس روک لینا جائز نہ ہو گا اور اگر ایسے عذر کے بغیر چھوڑ کر چلا گیا تو بقیہ مہینوں کی فیس روک لینا جائز ہو گا۔

ب: ٹیوشن کاا جارہ عموماً ماہانہ ہوتا ہے لہذا طالب علم کا سکول چھوڑ کر چلے جانا اگر شرعی عذر کے بغیر ہو تو سکول کو بقیہ ٹیوشن فیس رکھنے کا حق ہے ورنہ نہیں ہے ۔

2۔ الف: گھر چھوڑنا شرعی عذر کی وجہ سے ہو تو بقیہ کرایہ روکنا جائز نہیں ۔ ورنہ روک سکتے ہیں ۔

ب: عموماًگھر کرایہ پر لینے کا معاملہ ماہانہ بنیادوں پر ہوتا ہے ۔ اس لئے باقی مہینوں کا کرایہ مالک مکان کرایہ دار کو واپس کرے گا۔

واضح رہے کہ عذر شرعی سے مراد ہر وہ عذر ہے جس کے ہوتے ہوئے کرایہ داری کے معاملہ کو باقی رکھنے میں کسی ایک فریق کا جانی یا مالی نقصان ہوتا ہو ۔یا جس چیز پر کرایہ داری کا معاملہ ہو اتھا وہ ہی باقی نہ رہے مثلاًمکان کرایہ پر لیا تھااور وہ گرگیا ۔اور جہاں عذر شرعی کی وجہ اجارے کے معاملہ کو ختم کیا جائے گا وہاں ایک فریق کا دوسرے فریق کے علم میں لانا بھی ضروری ہوگا ورنہ اجارہ ختم نہ سمجھا جائے گا ۔

في رد المحتار (9/ 136):

و الحاصل أن كل عذر لا يمكن معه استيفاء المعقود عليه إلا بضرر يلحقه في نفسه أو ماله يثبت له حق الفسخ.

و في الفقه الإسلامي (5/ 3830):

العذر هو ما يكون عارضاً يتضرر به العاقد مع بقاء العقد و لا يندفع بدون الفسخ.

وفي شرح المجلة (2/ 560):

لو فات الانتفاع بالمأجور بالكلية سقطت الأجرة … و إن انهدمت الدار كلها فله الفسخ من غير حضرت رب الدار لكن الإجارة لا تنفسخ … و في إجارات شمس الأئمة: إذا انهدمت الدار كلها الصحيح أنه لا ينفسخ لكن سقط الأجر عنه فسخ أو لم يفسخ.

و فيه أيضاً (2/ 608):

إن أراد المستأجر فسخ الإجارة قبل رفع العيب الحادث الذي أقل بالمنافع فله  فسخها في حضور الآجر و إلا فليس له فسخها بغياب و إن فسخها بغيابه دون أن يخبره لم يعتبر فسخه و كراء المأجور يستمر كما كان، أما لو فات المنافع المقصودة بالكلية فله فسخها بغياب الآخر أيضاً و لا تلزمه الأجرة فسخ أو لم يفسخ … و أما لو انهدمت الدار بالكلية فمن دون احتياج إلى حضور الآخر للمستأجر فسخها و على هذه الحال لا تلزمه الأجرة.

وفي شرح المجلة (2/ 609):

إن العيب الحادث في المأجور كالموجود قبل العقد، لأن ما حدث من العيب يكون حدوثه قبل قبض ما بقي من المنافع المعقود عليها التي تحدث ساعة فساعة، فالفسخ في كل منهما أي البيع و الإجارة لا يحتاج فيه إلى القضاء أو الرضى لكن لا بد أن يكون بحضرة المؤجر أو المشتري و علمهما.

و فيه أيضاً (2/ 584):

و لا تنس أن فسخ أحدهما في أي طريق كان لا بد أن يكون بحضور الآخر.

وفي شرح المجلة (2/ 560):

و …. ذلك أنه لو شرط تعجيل الأجرة على المستأجر دفعها قبل تسليم المأجور لكنها لا تتقرر عليه إلا بعد إسلامه إياه، فتقرر عليه الأجرة شيئاً فشيئاً إلى أن يستوفي المنفعة و لو بالتمكن منها في جميع المدة المعقود عليها … و لو عجلها ثم بعد مضي نصف المدة المعقود عليها مثلاً انتقضت الإجارة رجع بحسابه ما بقي من المدة.

وفي شرح المجلة (2/ 608):

و إن فسخها بغيابه دون أن يخبره لم يعتبر فسخه و كراء المأجور يستمر كما كان.

و فيه أيضاً (2/ 561):

فإن كان غائباً ليس له أن يفسخ و لو خرج من الدار حال غيبة الآجر فعليه الأجر كما لو سكن، لأن العقد باق و هو متمكن من استيفاء المنفعة. ([1]) ……………………. فقط و الله تعالى أعلم

([1] ) پہلا جواب:

سوالات کے جوابات سے پہلے چند تمہیدی امور ذکر کیے جاتے ہیں:

1۔ اجارہ مؤجر یا مستاجر کی جانب سے کسی ایسے  عذر کی وجہ سے فسخ ہو سکتا ہے، جس کے ہوتے ہوئے اجارہ باقی رکھنا مشکل ہو۔

في رد المحتار (9/ 136):

و الحاصل أن كل عذر لا يمكن معه استيفاء المعقود عليه إلا بضرر يلحقه في نفسه أو ماله يثبت له حق الفسخ.

و في الفقه الإسلامي (5/ 3830):

العذر هو ما يكون عارضاً يتضرر به العاقد مع بقاء العقد و لا يندفع بدون الفسخ.

2۔  اگر عین مستاجرہ کی منفعت بالکلیہ ختم ہو گئی ہو جیسے کہ مکان منہدم ہو جانا تو اس صورت میں فریق ثانی کے علم میں لائے بغیر بھی یکطرفہ فسخ معتبر ہے۔ اور اگر ایسی صورت نہ ہو تو فریق ثانی کے علم میں لائے بغیر فسخ نہیں ہو سکتا۔

في شرح المجلة (2/ 560):

لو فات الانتفاع بالمأجور بالكلية سقطت الأجرة … و إن انهدمت الدار كلها فله الفسخ من غير حضرة رب الدار لكن الإجارة لا تنفسخ بنفسها… و في إجارات شمس الأئمة: إذا انهدمت الدار كلها الصحيح أنه لا ينفسخ لكن سقط الأجر عنه فسخ أو لم يفسخ.

و فيه أيضاً (2/ 608):

إن أراد المستأجر فسخ الإجارة قبل رفع العيب الحادث الذي أخل بالمنافع فله  فسخها في حضور الآجر و إلا فليس له فسخها بغيابه و إن فسخها بغيابه دون أن يخبره لم يعتبر فسخه و كراء المأجور يستمر كما كان، أما لو فات المنافع المقصودة بالكلية فله فسخها بغياب الآخر أيضاً و لا تلزمه الأجرة فسخ أو لم يفسخ … و أما لو انهدمت الدار بالكلية فمن دون احتياج إلى حضور الآخر للمستأجر فسخها و على هذه الحال لا تلزمه الأجرة.

في شرح المجلة (2/519):

وإن كانت الإجارة لغرض ولم يبق ذلك الغرض [كما استأجر طباخاً ومات العروس]…. أو كان عذر يمنعه من الجري على موجب العقد شرعاً تنتقض الإجارة من غير نقض … وكل عذر لا يمنع المضي في موجب العقد شرعاً ولكن يلحقه نوع ضرر يحتاج فيه إلى الفسخ، وإذا تحقق العذر ومست الحاجة إلى النقض هل ينفرد صاحب العذر بالنقض أو يحتاج إلى القضاء أو الرضا [من قبل الطرف الآخر]؟ اختلف الروايات فيه، والصحيح أن العذر إذا كان ظاهراً ينفرد، وإن كان مشتبهاً لا ينفرد.

3۔ جب اجارہ عذر سے فسخ ہو تو اس میں فریق ثانی کی رضا مندی ضروری نہیں۔ البتہ اس کے علم میں لانا ضروری ہے۔

في شرح المجلة (2/ 609):

إن العيب الحادث في المأجور كالموجود قبل العقد، لأن ما حدث من العيب يكون حدوثه قبل قبض ما بقي من المنافع المعقود عليها التي تحدث ساعة فساعة، فالفسخ في كل منهما أي البيع و الإجارة لا يحتاج فيه إلى القضاء أو الرضى لكن لا بد أن يكون بحضرة المؤجر أو المشتري و علمهما.

و فيه أيضاً (2/ 584):

و لا تنس أن فسخ أحدهما في أي طريق كان لا بد أن يكون بحضور الآخر.

4۔ اجارہ چونکہ بتدریج منعقد ہوتا ہے اس لیے فسخ کی صورت میں مؤجر باقی مدت کی اجرت کا استحقاق نہیں رکھتا۔

في شرح المجلة (2/ 560):

و …. ذلك أنه لو شرط تعجيل الأجرة يجب على المستأجر دفعها قبل تسليم المأجور لكنها لا تتقرر عليه إلا بعد إسلامه إياه، فتقرر عليه الأجرة شيئاً فشيئاً إلى أن يستوفي المنفعة و لو بالتمكن منها في جميع المدة المعقود عليها … و لو عجلها ثم بعد مضي نصف المدة المعقود عليها مثلاً انتقضت الإجارة رجع بحسابه ما بقي من المدة.

5۔  جس صورت میں فسخ معتبر نہ ہو گا مؤجر کی جانب سے تسلیم پائے جانے کی وجہ سے وہ باقی مدت کی اجرت کا مستحق بھی ہو گا۔

في شرح المجلة (2/ 608):

و إن فسخها بغيابه دون أن يخبره لم يعتبر فسخه و كراء المأجور يستمر كما كان.

و فيه أيضاً (2/ 561):

فإن كان غائباً ليس له أن يفسخ و لو خرج من الدار حال غيبة الآجر فعليه الأجر كما لو سكن، لأن العقد باق و هو متمكن من استيفاء المنفعة.

اصل جواب:

ان اصولوں کی روشنی میں منسلکہ سوالات کے جوابات یہ ہیں:

1۔ اگر طالب علم عذر کے بغیر جائے تو اجارہ فسخ نہیں ہو گا بلکہ باقی رہے گا اور وہ بقیہ اجرت کی واپسی کا استحقاق نہیں رکھتا۔ کیونکہ مؤجر کی جانب سے تمکین اور تسلیم پائی گئی جو کہ استحقاق اجرت کے لیے کافی ہے۔ اور اگر عذر کے ساتھ جائے مگر اطلاع دیے (یعنی اجارہ فسخ کیے) بغیر جائے تو بھی اجارہ باقی رہے گا اور اجرت کی واپسی کا حق حاصل نہ ہو گا۔ اور اگر اطلاع دے کر جائے گا تو بقیہ مدت کی اجرت (فیس کی واپسی) کا استحقاق رکھتا ہے۔

2۔ اس کا جواب وہی ہے۔

3۔ اس کے جواب میں بھی وہی تفصیل ہے۔ البتہ یہاں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ اگر اس کا سامان گھر میں رکھا رہا تو انتفاع پایا گیا۔

4۔ اس میں بھی وہی تفصیل جاری ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved