• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

رسول اللہ ﷺ کا سایہ تھا یا نہیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

روایات کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضور ﷺ کا سایہ نہیں تھا کیونکہ سایہ تو زمین پر ہوتا ہے اور یہ نبی کی شان کے خلاف ہے۔  جب دلیل مانگیں تو کہتے ہیں کہ دراصل حضور کے سرپر ہر وقت ایک بادل کا ٹکڑا رہتاتھا جس کی وجہ سے سایہ نہیں بنتا تھا ۔ سورج دن میں صرف ایک آدھ گھنٹے کے لئے ہی سر کے عین اوپر ہوتا ہے باقی وقت وہ ہمیشہ کسی خاص زاویہ میں اپنا سفر جاری رکھتا ہے ۔اگر بادل سر کے اوپر ہو تو سوائے دوپہر کے ہر وقت سایہ بنتا ہوگا ، روایات لکھنے والے بے چارے واجبی سی عقل کے حامل تھے عقیدت میں اتنا آگے نکل گئے کہ جھوٹ بولنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے تھے آپ کے پاس تو عقل ہے سائنس بھی ترقی کرچکی اگر اب بھی آپ جھوٹی روایات پر یقین کریں گے تو آپ گمراہی میں مبتلا ہوجائیں گے ۔

اس کا جواب مضبوط دلائل سے دے دیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ذخیرہ کتب میں رسول اللہ ﷺ کے سایہ سے متعلق دونوں قسم کی روایات موجود ہیں ۔صحیح روایات سے ثابت  ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا سایہ  موجودتھااوربعض روایات میں آپ ﷺ کے سایہ  کی نفی منقول ہے۔لیکن چونکہ سایہ کی نفی والی   روایات میں کوئی ایک روایت  بھی صحیح و صریح موجود  نہیں، اس لئے ہماری تحقیق کے مطابق سایہ کے ثبوت  والی روایات راجح ہیں ۔چنانچہ مسند احمد (41/ 463)میں روایت  ہے   :

عن عائشة أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم كان في سفر له، فاعتل بعير لصفية، وفي إبل زينب فضل، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إن بعيراً لصفية اعتل، فلو أعطيتها بعيراً من إبلك! فقالت: أنا أعطي تلك اليهودية ؟ قال: فتركها رسول الله صلى الله عليه وسلم ذا الحجة والمحرم شهرين، أو ثلاثة، لايأتيها، قالت: حتى يئست منه، وحولت سريري، قالت فبينما أنا يوماً بنصف النهار، إذا أنا بظل رسول الله صلى الله عليه وسلم مقبل…….

مسند احمد(44/435) میں ایک اور روایت  ہے  :

عن صفية بنت حيي، أن النبي صلى الله عليه وسلم حج بنسائه، فلما كان في بعض الطريق، نزل رجل، …  فلما كان شهر ربيع الأول، دخل عليها، فرأت ظلّه، فقالت: إن هذا لظل رجل، وما يدخل علي النبي صلى الله عليه وسلم، فمن هذا ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بعض علماء نے سایہ نہ ہونے کی جووجوہات ذکر کی ہیں مثلا آ پ ﷺ کے سر مبارک پر دائمی بادل رہنایا نورہونا ،تویہ  وجوہات بھی صریح نصوص کے معارض ہونے کی بنا پر مرجوح ہیں۔چنانچہ امداد الفتاوی (5/411) میں ہے :

سوال : حضور سرور کائنات ﷺ کے سایہ نہ ہونے کے بارہ میں جو روایات ہیں وہ کس درجہ کی ہیں اور اس کے متعلق کیا عقیدہ و خیال رکھنا چاہیے کہ آیا واقعی حضور ﷺ کا سایہ پڑتا تھا یا نہیں ؟

جواب : سایہ نہ ہونے کی ایک روایت صریح بھی نہیں گذری صرف بعض نے "واجعلنی نورا  "سے استدلال کیا ہے کہ نور کا سایہ نہیں ہوتا کیونکہ سایہ ظلمت ہوتاہے مگر ضعف اس کا ظاہر ہے کہ شاید حضور ﷺ کے سرپر ابر رہنا اس کی اصل ہو کیونکہ اس صورت میں ظاہر ہے کہ سایہ نہ ہوگا لیکن خود صحاح میں روایت ہے کہ آپ ﷺ کے سر مبارک پر بعض اوقات سفر میں صحابہ کپڑے کا سایہ کئے ہوئے تھے اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابر کا رہنا بھی دائمی نہ تھا۔ فقط واللہ اعلم

البتہ یہ بات ملحوظ رہے کہ جن حضرات نے سایہ  نہ ہونےکی وجہ  سر پر بادل  رہنا ذکر کیا ہے تو ان  کی دلیل وہ روایات ہیں جن میں بعثت سے پہلے رسول اللہ ﷺ کے سرمبارک پر بادل کے سایہ  کاتذکرہ ملتا ہے چنانچہ طبقات ابن سعد (1/156) میں ہے  :

عن ابن عباس رضي الله عنه قال: خرجت حليمة تطلب النبي (صلى الله عليه وسلم)وقد بدت إليهم تقيل، فوجدته مع أخته فقالت: في هذا الحر؟ فقالت أخته: يا أماه، ما وجد أخي حرا، رأيت غمامة تظل عليه إذا وقف وقفت معه، وإذا سار سارت معه ۔

 یہ توجیہ گو مرجوح ہے اور علماء نے اسےقبل از بعثت  کے ساتھ خاص کیا ہے (المواہب اللدنیہ 1/351)  لیکن اس توجیہ کو اختیار کرنے والے حضرات پرکم عقل ہونے کا حکم لگانا خود اپنی کم عقلی کی دلیل ہے کیونکہ ان صاحب نے یہ فر ض کر لیا کہ جب سورج سر سے آگے گزر گیا تو بادل وہیں رہیں گے حالانکہ ان روایات کا مطلب صاف اور سیدھا سا ہے کہ جس طرف سورج ہوتا تھا بادل بھی اسی طرف ہو کر سایہ کرتے تھے اوریہ بات  سائنس کے کس  اصول کے خلاف ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved