- فتوی نمبر: 8-232
- تاریخ: 06 جنوری 2016
استفتاء
بیوی کا حلفیہ بیان
8 فروری کو میرے میاں نے مجھے مارا پیٹا اور گھر سے نکال دیا۔ اور کہا ’’تم چلی جاؤ، میں تمہیں طلاق دے دوں گا، جاؤ دفعہ ہو جاؤ یہاں سے‘‘۔ اس کے بعد میں اپنے میکے گھر آ گئی۔ اس کے بعد میرا اپنے میاں سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ ابھی تین دن قبل ڈاک سے منسلکہ طلاق نامہ وصول ہوا ہے، مگر اس میں طلاق دیتے وقت بجائے میرے نام کے***‘ لکھا ہوا ہے۔ جبکہ میرا نام***ہے، *** میرا بالکل نام نہیں ہے، اور میرے میاں بھی مجھے گھر میں شمع کے نام سے ہی بلاتے تھے۔
خاوند کا بیان
میں اپنی بیوی کو رکھنا نہیں چاہتا۔ میں نے اسے زبانی کئی بار طلاق دی ہے، جس کے الفاظ یہ تھے ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں‘‘۔ باقی تحریری طلاق میں نام کی غلطی تو اس کے بارے میں یہ ہے کہ وہ وکیل سے غلطی ہوئی کہ اس نے غلط نام لکھ دیا، اور میں نے بغیر پڑھے اس پر دستخط کر دیے۔ میں اپنی بیوی کو ہی طلاق دینا چاہتا تھا اور اب بھی چاہتا ہوں۔ لڑکی والے زبانی طلاق کو مان نہیں رہے تھے، اس لیے تحریری لکھ کر دی تھی۔
نوٹ: خاوند کا بیان فون پر سن کر قلمبند کیا گیا۔
طلاق نامہ کے الفاظ: لہذا اب من مقر خود اپنی مرضی سے بلا جبر و اکراہ بقائمہ ہوش و حواس***کو تین طلاق یعنی طلاق، طلاق، طلاق دیکر اپنی زوجیت سے خارج کرتا ہوں اور آج کے بعد*** میرے نفس پر حرام ہے ۔۔۔ الخ
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں منسلکہ طلاق نامہ کی رُو سے تو طلاق نہیں ہوئی کیونکہ بیوی کا نام’’***‘‘ ہے جبکہ طلاق کی نسبت***‘ کی طرف کی گئی ہے۔ لیکن جب مذکورہ صورت میں خاوند خود اقرار کر رہا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو زبانی طور پر یہ الفاظ کہے ہیں کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ تو مذکورہ صورت میں اس زبانی طلاق کی وجہ سے بیوی کو تین طلاقیں ہو گئی ہیں۔ لہذا اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ رجوع ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved