- فتوی نمبر: 8-308
- تاریخ: 18 فروری 2016
استفتاء
گذارش ہے کہ مجھے طلاق کا مسئلہ پوچھنا ہے کہ کیا ایک ہی دفعہ میں تین دفعہ طلاق لکھ کر دستخط کر دینے سے طلاق ہو جاتی ہے یا اس میں کوئی گنجائش ہوتی ہے؟ جبکہ اسے منہ سے نہ بولا جائے اور دل میں اس کا ارادہ بھی نہ ہو اور فیملی کے دباؤ کی وجہ سے ایسے کیا جائے۔ اس گذارش کے ساتھ وہ کاغذ اور عبارت منسلک ہے جس پر میں نے دستخط کیے۔
اور تفصیل کچھ یہ ہے کہ میں نے ایک لڑکی سے شادی کی جو کہ میرے اور اس کے گھر والوں کی مرضی کے خلاف تھی اور ہم 20 دن ایک ساتھ رہے بھی، لیکن بعد میں ہماری خاصکر میری فیملی نے ہمیں دباؤ دینا شروع کر دیا اور یہ بتایا کہ اس کی ماں کی طبیعت خراب ہے تو اسے واپس گھر بھیج دو، اور ان کی شرط یہ تھی کہ لڑکی اپنے ساتھ طلاق کا کاغذ لے کر آئے، لیکن ساتھ میں انہوں نے اسے رہنے کی اجازت بھی دے دی میرے ساتھ۔ لیکن میرے بہنوئی نے ایک تحریر تیار کروائی اور ہم دونوں کو مجبور کیا کہ ہم ایسا ہی کریں اور اس وقت یہ تحریر ضروری بھی تھی کہ سب کو یہ ڈر تھا کہ اگر لڑکی واپس چلی گئی تو اس کے گھر والے ہمارے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہ کر سکیں۔ اور اسی دوران میری اور میری زوجہ کی بات یہ بھی ہوئی کہ اگر میں اسے واقع طلاق دینا چاہتا ہوں تو بو ل کے دوں گا جو کہ میں نے آج تک نہیں بولا کیونکہ ہم دونوں طلاق کے حق میں نہ تھے۔ لیکن میرے بے حد اصرار کے بعد بھی انہوں نے مجھ سے اس کاغذ کے اوپر دستخط کروا کے لڑکی کو گھر بھجوا دیا۔ اس دوران میرے والدین بھی یہاں موجود نہیں تھے اور جب انہوں نے یہاں آ کے مجھ سے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو تو میں نے جواب دیا کہ میں اسے رکھنا چاہتا ہوں۔
اب مجھے آپ کی رائے چاہیے کہ کیا دین کی رو سے ہمارے پاس کوئی گنجائش بنتی ہے یا نہیں؟ کیونکہ ہمارا نکاح نادرا میں بھی رجسٹرڈ ہے۔ برائے مہربانی ہماری رہنمائی فرمائی جائے۔
خلاصہ: میں نے اور *** *** نے آپس کی رضا مندی سے والدین کی اجازت کے بغیر شادی کر لی تھی لیکن دونوں خاندانوں نے مسلسل اور شدید دباؤ کی وجہ سے میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اپنی بیوی *** *** کو طلاق دے دوں۔ اس سلسلہ میں تین مرتبہ طلاق تحریراً پر میں نے دستخط کر دیے ہیں۔
اب ہمارا رشتہ ختم ہو چکا ہے یا نہیں؟ مہربانی فرما کر رہنمائی فرمائیں۔
چند وضاحتیں:
1۔ سوال کے ساتھ منسلکہ طلاق نامہ پر اگرچہ دستخط نہیں ہیں مگر جو طلاق نامہ لڑکی کو بھیجا گیا تھا اس پر دستخط تھے۔
2۔ طلاق کا اصرار صرف زبانی سمجھانے اور نتائج سے ڈرانے کی حد تک تھا، کوئی زور زبردستی نہیں تھی۔ یہ بھی میرے بہنوئی نے کیا تھا، اس نے کہا تھا کہ کل کو بھی تمہیں طلاق تو دینی پڑے گی، اچھا ہے آج ہی دے دو۔ واضح رہے کہ میری پہلے شادی ہے اس سے بچے بھی ہیں، یہ دوسری شادی تھی۔
3۔ لڑکی بھی جٹ برادری سے تعلق رکھتی ہے اور میں بھی، دونوں کا دینی رجحان بھی ایک جیسا ہی ہے۔ اس حوالے سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
4۔ نکاح کے الفاظ یہ تھے کہ گواہوں کی موجودگی میں مولوی صاحب نے ہم دونوں سے باری باری تین دفعہ یہ الفاظ کہے: ’’میں *** *** دختر *** *** گِل ساتھ حق مہر معجل 1000 اور غیر معجل 50000 کے آپ کے نکاح میں دیتا ہوں، کیا آپ کو قبول ہے؟‘‘ میں نے جواب میں کہا: ’’مجھے قبول ہے‘‘۔
یہی بات انہوں نے لڑکی سے کہی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
طلاق جس طرح منہ سے بول کر دینے سے ہو جاتی ہے، اس طرح لکھ کر دستخط کر دینے سے بھی ہو جاتی ہے۔
مذکورہ صورت میں اگرچہ طلاق کی تحریر سائل کے بہنوئی نے تیار کروائی ہے لیکن سائل نے یہ جانتے ہوئے اس تحریر پر دستخط کیے ہیں کہ اس تحریر میں تین طلاقیں لکھی ہوئی ہیں۔ لہذا سائل کے طلاق نامہ پر دستخط کرنے سے تین طلاقیں ہو گئی ہیں۔ اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے۔ لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح ہو سکتی ہے۔
مذکورہ صورت میں اگرچہ سائل کا کہنا ہے کہ یہ دستخط میں نے شدید دباؤ میں آ کر کیے ہیں، لیکن سائل کی طرف سے دی گئی وضاحت میں یہ بات موجود ہے کہ ’’ طلاق کا اصرار صرف زبانی سمجھانے اور نتائج سے ڈرانے کی حد تک تھا، کوئی زور زبردستی نہیں تھی‘‘۔ اس وضاحت کے ہوتے ہوئے مذکورہ صورت میں ’’شدید دباؤ‘‘ شرعاً اس دباؤ کے زمرے میں نہیں آتا کہ جس میں تحریری طلاق مؤثر نہ ہوتی ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved