- فتوی نمبر: 8-320
- تاریخ: 18 فروری 2016
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری اور بیوی کے درمیان پہلے چھوٹی موٹی لڑائی ہو جاتی تھی۔ پھر اس کے والد نے اس کو فون کیا اور ہمیں گالی گلوچ دینی شروع کر دی اور اپنی بیٹی سے کہا کہ تم چھت سے چھلانگ لگا دو، میں ان پر پرچہ کروا دوں گا۔ یہ بات ہمارے موبائل میں ریکارڈ ہو گئی اور ہم نے یہ باتیں سنی، تو میں نے طیش میں آکر بیوی کے سامنے یہ الفاظ بولے ’’میں نے تمہیں طلاق دی‘‘، یہ الفاظ میں نے پانچ سے چھ مرتبہ دھرائے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ کتنی طلاقیں ہوئیں اور اب رجوع کی کوئی گنجائش ہے یا نہی؟ جبکہ ہم دونوں میاں بیوی دوبارہ اکٹھا رہنے کے لیے راضی ہیں۔
وضاحت مطلوب ہے: اس موقع پر اور بھی الٹی سیدھی حرکت کی یا صرف طلاق کے الفاظ ہی بولے تھے؟
جواب: اور کوئی الفاظ نہیں بولے اور نہ ہی کوئی حرکت کی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگرچہ سائل نے طلاق غصہ کی حالت میں دی ہے لیکن غصہ کی کیفیت ایسی نہیں کہ جس میں دی گئی طلاق مؤثر نہ ہوتی ہو۔ لہذا مذکورہ صورت میں تین طلاقیں ہو گئی ہیں اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے، اب صلح یا رجوع کی کچھ گنجائش نہیں۔
فتاویٰ شامی (4/ 439) میں ہے:
قلت: و للحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام:
أحدها: أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لا يتغير عقله و يعلم ما يقول و يقصده، و هذا لا إشكال فيه. الثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول و لا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله. الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، و الأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله اھ ملخصاً من شرح الغاية الحنبلية، لكن أشار في الغاية إلى مخالفته في الثالث حىث قال: و يقع طلاق من غضب خلافاً لابن القيم اھ و هذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش. …….. فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش و نحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله و أفعاله الخارجة عن عادته، و كذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته، فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال و الأفعال لا تعتبر أقواله و إن كان يعلمها و يريدها، لأن هذه المعرفة و الإرادة غير معتبر لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل……. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved