• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین طلاقوں کو ایک شمار کرنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے اپنی بیوی سے پیسے لینے تھے اور میں نے اس کو کہا کہ مجھے پیسے لا کر دو، اس نے انکار کیا جس کی وجہ سے مجھے غصہ آگیا اور میں نے اپنی بیوی کو یہ الفاظ کہہ ڈالے کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ حالانکہ میری طلاق دینے کی نیت نہ تھی۔

میں نے ایک جگہ سے فتویٰ لیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ طلاق ایک ہوتی ہے۔ کیا یہ  بات درست ہے؟ یہ اہل حدیث حضرات کا فتویٰ ہے وہ لوگ کہتے ہیں کہ تین طلاقیں ایک ہی ہوتی ہیں۔ برائے مہربانی شریعت کی روشنی میں جواب دیں کہ کتنی طلاقیں واقع ہوئیں ہیں اور اہل حدیث حضرات کا یہ کہنا درست ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہوچکی  ہیں اور عورت اپنے خاوند پر مکمل طور سے حرام ہوگئی ہے۔ اب نہ صلح ہوسکتی ہے اور نہ ہی رجوع کی گنجائش ہے۔

تین طلاقوں کا اکٹھے واقع ہونا جمہور امت ( صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین اور محدثین )کا متفقہ فیصلہ ہے ۔ اہل حدیث کا یہ مسئلہ درست نہیں کیونکہ یہ جمہور امت کی رائے کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ خود احادیث کے بھی خلاف ہے:

عن مالك بن الحارث عن ابن عباس أتاه رجل فقال إن عمي طلق امرأته ثلاثا فقال إن عمك عصى الله فلم يجعل له مخرجا. ( ابن أبي شيبه )

ترجمہ: حضرت مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس  ایک شخص آیا اور عرض کیا میرے چچا نے اپنی بیوی کو ( اکٹھی ) تین طلاقیں دے دی ہیں تو  ( خلاصی کی کوئی راہ بتلائیں ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تمہارے چچا نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو اللہ نے اس کو ندامت میں ڈالدیا اور اس کے لیے خلاصی کی کوئی راہ نہیں رکھی۔

عن مجاهد قال: كنت عند ابن عباس فجاءه رجل فقال إنه طلق امرأته ثلاثاً فسكت حتى ظننت أنه سيردها إليه فقال ينطلق أحدكم فيركب الأحموقة ثم يقول يا ابن عباس يا ابن عباس يا ابن عباس ! إن الله  قال : و من يتق الله يجعل له مخرجاً و إنك لم تتق الله فلا أجد لك مخرجاً عصيت ربك و بانت منك امرأتك. ( سنن أبو داؤد )

ترجمہ: حضرت مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ( بیٹھا ) تھا کہ ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو ( ایک وقت میں ) تین طلاقیں دے دی ہیں تو ( کیا کوئی گنجائش ہے، اس پر ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  کچھ دیر خاموش رہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ ( شاید کوئی صورت سوچ کر) و ہ اس کی بیوی اس کو واپس دلادیں گے ( لیکن ) پھر انہوں نے فرمایا : تم میں سے ایک شروع ہوتا ہے اور حماقت پر سوار ہوجاتا ہے ( اور تین طلاقیں دے بیٹھتا ہے ) اور پھر( میر پاس آکر ) اے ابن عباس! اے ابن عباس! اے ابن عباس! ( کوئی راہ نکالیے ) کی دہائی دینے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "و من يتق الله يجعل له مخرجاً” ( ترجمہ: جو کوئی اللہ  سے ڈرے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی راہ نکالتے ہیں ) تم تو اللہ سے ڈرے نہیں (اور تم  نے اکٹھی  تین طلاقیں دے دیں جو کہ گناہ کی بات ہے) تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ( اس لیے تمہارے لیے خلاصی کی کوئی راہ نہیں ) اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

                                                                                 (ماخوذ از قدیم فتاویٰ)

نوٹ: تین طلاقوں کے تین ہونے کی مزید وضاحت اور دلائل کے لیے فتوے کے ساتھ منسلکہ تحریر کا مطالعہ فرما لیا جائے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved