• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مفتی کے فتوے کی بنیاد پر بیوی کو طلاق دینا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام ایک مسئلہ کے بارے میں کہ

میری شادی 2014ء میں ہوئی۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہمارے تعلقات میں بگاڑ آگیا، جس کی بنیاد پر میں نے اپنی بیوی کو فون پر کہا ’’میں تمہیں ایک طلاق دیتا ہوں‘‘۔ اس کے بعد گجرات میں مفتی جمیل صاحب سے بات ہوئی انہوں نے کہا کہ آپ رجوع کریں میں نے بیوی کو فون کیا اور زبانی رجوع کر لیا۔ زبانی رجوع کے تقریباً ڈیڑھ دو ماہ بعد میاں بیوی والے تعلقات قائم کیے اور یہ تعلقات تین  ماہواریاں گذرنے سے پہلے قائم کر لیے تھے۔ میں پھر سپین چلا گیا، وہاں کچھ عرصہ رہا ہمارا رابطہ فون کے ذریعہ مسلسل رہتا تھا، کچھ عرصہ بعد گھریلو حالات کچھ ایسے ہو گئے کہ میں نے اپنی بیوی کو وٹس ایپ میں دوسری طلاق کا میسج کر دیا، میسج پر صرف الفاظ یہ تھے: اور یہ الفاظ طلاق کی نیت سے لکھے تھے: ’’میں نے تمہیں دوسری طلاق دی‘‘ پھر ساتھ ہی میں نے رجوع کا میسج بھی کر دیا کہ ’’میں تمہیں رکھنا چاہتا ہوں میں رجوع کرتا ہوں‘‘۔

میں پاکستان آگیا میری اہلیہ اپنے سسرال میں تھی میں اس کے پاس گیا اور گھریلو حالات کے پیش نظر میں نے اس کو یہ کہا کہ ’’اگر تم نے اپنے گھر سے باہر پاؤں رکھا میری اجازت کے بغیر تو تمہیں طلاق‘‘ اس وقت میری حالت یہ تھی کہ میرے سر میں رسولی تھی جس کی وجہ سے میرا آپریشن ہوا تھا زخم ابھی تازہ تھا، میں نے جیسے ہی یہ الفاظ بولے فوراً میرے دل میں یہ بات آئی کہ یہ میں نے کیا بول دیا ہے۔ میرےا یک دوست ہیں ان سے رابطہ کیا انہوں نے مجھے تین مفتیان کرام کے نمبر دیے، ایک سرگودھا کے مفتی صاحب تھے انہوں نے کہا اب آپ کی بیوی کو ہمیشہ آپ کی اجازت کا پابند رہنا پڑے گا۔ دوسرا نمبر کراچی کے دار الافتاء کا نمبر تھا وہاں کے تقریباً چھ مفتیان کرام نے مجھے یہ فرمایا کہ آپ اپنی بیوی کو یہ کہہ دیں کہ میں تمہیں ہمیشہ کے لیے اجازت دیتا ہوں تم جب چاہو باہر نکل سکتی ہو، اس طرح طلاق نہیں ہو گی۔ ساتویں مفتی ہمارے علاقے کے مفتی عمر رضا صاحب نے بھی یہی فیصلہ فرمایا۔ اور میں نے اپنی بیوی کو ہمیشہ کے لیے میری اجازت کے بغیر گھر سے نکلنے کی اجازت دیدی۔ لیکن ایک وسوسہ میرے دل میں مسلسل کھائے جا رہا تھا کہ وہ میری بیوی رہی یا نہیں کیونکہ سرگودھا کے مفتی صاحب نے فرمایا تھا کہ آپ کی بیوی کو ہمیشہ آپ کی اجازت پر رہنا پڑے گا۔ اس وسوسہ کی وجہ سے میں بہت پریشان تھا، میں ذکر کرتا تھا تو ایسے لگتا تھا کہ میں طلاق بول رہا ہوں اور اللہ پاک سے دعا کیا کرتا کہ یا اللہ حقیقت حال واضح فرما، مجھے بشارت دے دے کہ یہ میری بیوی ہے کہ نہیں۔ یہ خیال مسلسل میرے دل کو کھائے جارہا تھا حالانکہ سات مفتیان کرام نے میرے حق میں فیصلہ دیا تھا۔

میری بیوی کے چچا کی بیٹی کی شادی تھی اس کا شوہر (وقاص) میرے قریب ہی سپین میں رہتا تھا لیکن میرے علم میں نہیں تھا اس نے سپین میں میرے ساتھ کام کرنے والوں کو  بتا دیا کہ میرا میری بیوی کے ساتھ تعلق ٹھیک نہیں ہے وہ سب لوگ فیصل آباد کے ہیں اور میں گجرات کا، میں حیران ہوا کہ ان کو کس نے بتایا۔ المختصر تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ فلاں آدمی (وقاص) نے بتایا ہے کہ مجھے شدید غصہ آیا اور اپنی بیوی کو کہا کہ ’’تم اس شادی پر نہ جانا وہ بندہ ٹھیک نہیں ہے، اگر تو گئی تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا‘‘ بہر حال وہ چلی گئی۔ کچھ عرصہ بعد میری بیوی کو چچا کی بیٹی نے جس کی شادی پر وہ گئی تھی اس نے اپنے شوہر (وقاص) کو سپین میں فون کر کے کہا کہ تم تو شراب پیتے ہو، اس نے کہا کہ تمہیں کس نے بتایا اس نے میرا نام لے دیا، حالانکہ مجھے خبر تک نہ تھی اس نے مجھے فون کیا اور گالیاں دیں کہ تم نے میرے بارے میں یہ یہ باتیں کہی ہیں، میں انکار کر رہا تھا پھر اس نے میری بیوی پر الزامات لگانے شروع کر دیے کہ وہ شادی پر آئی تھی وہ ایسی ہے ویسی ہے، مجھے بھی سن کر غصہ آیا، میں نے بھی اس کو گالیاں دیں، میں نے اس کو کہا کہ اگر تم نے ثبوت نہ دیے ان باتوں کے تو میں اپنی بیوی کو چھوڑ دوں گا، پھر میں نے کہا تمہیں یہ باتیں کس نے کہیں، اس نے پہلے کہا میرے سسر نے بتلائی ہیں، میں نے ان سے بات کی انہوں نے کہا کہ میں نے تو کوئی ایسی بات نہیں کی۔ میں نے وقاص کو فون کر کے کہا کہ میں پاکستان جا رہا ہوں (فلائٹ تین جولائی کی تھی) تم نے یہ معاملہ 7 تاریخ تک کلیئر نہ کیا تو میں بیوی کو چھوڑ دوں گا، یہ پیغام میں نے اپنے سسرال بھی سب کو دیا۔ میں نے اپنی بیوی کو بھی یہ کہا تھا کہ میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ تم گئی کیوں میں نے تمہیں منع کیا تھا، میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔

بہر حال7 تاریخ سے پہلے ہی کچھ حالات ایسے سامنے آئے کہ معاملہ سارا واضح ہو گیا، وقاض نے بھی معذرت کر لی۔ میرے دل میں وہی وسوسہ بار بار کھٹکتا تھا کہ کہیں میری بیوی کو طلاق تو نہیں ہو گئی تھی، اسی پریشانی کی حالت میں میں مفتی جمیل صاحب کے پاس گیا، میں نے وہی مسئلہ دہرایا جس کے بارے میں کراچی کے سات مفتیان کرام نے فیصلہ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں دیکھ کر بتاؤں گا، اگلے دن وہ کتاب لائے اور کہا کہ خود پڑھو گے یا میں پڑھ کر سناؤں۔ انہوں نے بتایا کہ آپ کی بیوی کو طلاق ہو گئی ہے۔ مفتی جمیل صاحب کے فتوے کی بنیاد پر میں نے سوچا کہ میری بیوی کو طلاق تو ہو چکی ہے میں اس کو فارغ کرتا ہوں، میں نے ایک لیٹر میں تیسری طلاق بھی لکھ کر بھیج دی۔ اگر مفتی صاحب یہ فتویٰ نہ دیتے تو شاید میں طلاق نہ دیتا۔ لیکن میں لیٹر بھیج چکا تھا، شام کو میں ایک دوست کے پاس جاتا ہوں وہاں ایک مولوی صاحب نے کہ آپ نے غلط خبر کے مطابق تیسری طلاق دی ہے لہذا آپ مفتی صاحب سے رابطہ کریں۔

اسی مسئلہ کو لے کر آیا ہوں کوئی حل ارشاد فرمائیں مسئلہ واضح فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں ہو گئی ہیں نکاح مکمل طور سے ختم ہو گیا ہے لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: پہلی دو طلاقوں کے واقع ہونے  میں تو کچھ شبہ نہیں۔ البتہ تیسری تحریری طلاق کے وقوع میں مندرجہ ذیل عبارات سے شبہ ہو سکتا ہے:

فتاویٰ شامی (12/265) میں ہے:

أقر بشيء ثم ادعى الخطأ لم يقبل إلا إذا أقر بالطلاق بناء على إفتاء المفتي ثم تبين عدم الوقوع لم يقع يعني ديانة.

أيضا: قال في البزازية:

ظن وقوع الثلاث بإفتاء من ليس بأهل فأمر الكاتب بصك الطلاق فكتب ثم أفتاه عالم بعدم الوقوع له أن يعود إليها في الديانة.

ان عبارات کا جواب یہ ہے کہ  یہ عبارات اقرار پر محمول ہیں جبکہ ہماری زیر نظر صورت میں شوہر نے طلاق کا انشاء کیا ہے نہ کہ اقرار۔ کیونکہ (i) جہاں سرگودھا کے مفتی صاحب نے طلاق ہونے کا ذکر کیا وہیں دار العلوم کراچی کے 6 مفتیان کرام نے طلاق نہ ہونے کا ذکر کیا تھا۔ پھر ان کے علاقہ کے مفتی صاحب نے بھی کراچی والوں کی تائید کی۔

ii۔ سائل نے اقرار بالطلاق نہیں کیا بلکہ باقاعدہ طلاق نامہ لکھ کر بھیجا ہے اور اس میں اور اقرار بالطلاق  میں بڑا فرق ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved