• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اگر مقررہ مدت میں راضی نامہ نہ ہوا تو اسی کو طلاقِ دوم اور سوم سمجھا اور پڑھا جائے گا

استفتاء

دستاویز طلاق نامہ

منکہ م*** ولد***کا ہوں۔

جو کہ من مقر کا نکاح ہمراہ***مورخہ 14-3-28 کو پڑھا جا کہ درج رجسٹر یونین کونسل 1/84 ہوا۔ مقر کے نطفہ اور مذکوریہ***کے بطن سے ایک بیٹی نابالغہ*** پیدا ہوئی۔ اب *** مذکورہ بخانہ من مقر آباد نہ رہنا چاہتی ہے اور بار بار طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے، من مقر نے مذکوریہ کو آباد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے مگر وہ طلاق لینے پر بضد ہے چنانچہ***مذکوریہ کے مطالبہ پر من مقر نے اسے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کر دیا ہے، یہ طلاق اول ہے اگر مقررہ مدت میں راضی نامہ نہ ہوا تو اسی کو طلاقِ دوم اور سوم سمجھا اور پڑھا جائے گا۔ فی الحال بقائمی ہوش و حواس خمسہ بر مطالبہ*** مذکوریہ یہ دستاویز طلاق نامہ روبرو گواہان ہاشیہ لکھ دی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔

وضاحت مطلوب ہے: 1۔ آپ اس طلاق نامے کے حوالے سے کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟

2۔ مقررہ مدت سے کیا مراد ہے؟

3۔ مقررہ مدت میں راضی نامہ ہوا یا نہیں؟

جواب وضاحت: 1۔  مذکورہ طلاق نامے کی رُو سے کتنی طلاقیں ہو گئیں؟

2۔ تین ماہ میں اگر عورت راضی ہو جائے تو تاکہ ورنہ اسی کو دوسری تیسری طلاق سمجھا جائے۔

3۔ راضی نامہ نہیں ہوا۔

مزید وضاحت مطلوب ہے: کہ ’’تین ماہ‘‘ کا ذکر تحریر میں تو نہیں ہے، کیا زبان سے تین ماہ کا ذکر کیا تھا یا تین ماہ کی بات صرف ذہن میں تھی اور اگر زبان سے کہا تھا تو کیا بیوی کو اس کا علم ہوا یا نہیں؟

جواب وضاحت:  گھر کے سارے لوگ بیٹھے تھے اور یہ بات طے پائی کہ تین مہینے کے اندر اندر اگر رجوع ہو جاتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ طلاق سمجھی جائے گی۔  اور اس بات کا علم بیوی کو بھی ہو گیا تھا۔

نوٹ: سائل سے اس وضاحت کے لیے فون پر بات ہوئی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا ہے، میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ سے نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔ دوبارہ نکاح کرنے میں نیا مہر بھی ضروری ہے۔

توجیہ: ایک طلاق بائنہ طلاقنامہ کی اس عبارت سے ہوئی ’’من مقر نے اسے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کر دیا ہے‘‘ باقی طلاق نامہ کی اس عبارت سے کہ ’’اگر مقررہ مدت میں راضی نامہ نہ ہوا تو اسی کو طلاقِ دوم اور سوم سمجھا اور پڑھا جائے گا۔‘‘ کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔ کیونکہ طلاق زبان سے یا لکھ کر دینے سے ہوتی ہے، محض سمجھے جانے یا پڑھے جانے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved