• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ذہنی مریض کی طلاق کی ایک صورت

استفتاء

میں Protein Urea  گردے کی دوائی Neoral اور کچھ اور ادویات بھی لیتا ہوں، ڈاکٹر کے مطابق اس کے Side Effects (اثراث) یہ ہیں:

حقیقت سے قطع تعلقی Loss of Reality Contact (Psychosis)

یا داشت کھونا Memory Loss

وقتی پاگل پن  Delirium

7 جون کو میں نے رات کے 8:45 پر اپنی بیوی کو غصے کی حالت میں تین طلاقیں دیں ، میں نے تین دفعہ کہا:  کہ ’’میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ کیونکہ وہ مجھ سے ناجائز بحث کر رہی تھی اور اس نے مجھے میری مرضی کے خلاف گہری نیند سے اٹھایا تھا، میں نے دوائی تقریبا  سوا سات بجے لی تھی جس کے اثرات بھی تھے۔ اس دن مجھے تین دفعہ دورہ (Fit) پڑا تھا اور اس وقت بھی میں Fit  ہونے کے بعد قدرے بہتر حالت میں تھا یعنی شاید Paves تھا (Fit کے دوران قدرے حواس بہتر ہونا۔ )مہربانی فرما کر مجھے بتایا جائے کہ اس طرح طلاق ہوئی یا نہیں۔

نوٹ: سائل کے مذکورہ مرض میں مبتلا ہونے کی طبی تصدیقات ساتھ لف ہیں۔

سائل کی طرف سے مرحلہ وار تفصیلات

5 بجے صبح: واک پر گیا، دوائی لی اور کھانا کھانے کے بعد میں نے تقریباً ایک گھنٹہ کویت سے آیا ہوا سامان کھولا جو کہ میری بیوی

نے کھولا تھا اور مجھے بہت غصہ تھا۔

8 بجے صبح: واک قریباً ایک گھنٹہ 30 منٹ کی، اس دوران مجھے محسوس ہوا کہ میرا ذہن منتشر ہو کر حقیقی دنیا سے رابطہ منقطع ہو گیا اور میرے ذہن میں تین غلط خیال آئے۔ (1) کسی کے منہ پر تھوک دوں، (2) آج کسی بچے کے اوپر سے گاڑی گذار دوں (3) میں سمجھ گیا کہ میں نارمل نہیں، گھر آتے ہی میں نے چھٹی کے لیے دفتر لکھ دیا۔

9- 8:30 بجے صبح: میں نے دفتر کا کچھ کام کیا، ای میل لکھی اور کچھ ای میل کے جواب دیے، چونکہ چھٹی لے چکا تھا اور ذہنی انتشار اور حقیقی دنیا سے رابطہ ختم ہونے کا خدشہ تھا تو میں فوراً سو گیا۔

12:15 بجے: میں سو کر اٹھا اور بیوی سے کہا کہ تم نے اے سی لانے ہیں جو کہ اس نے پہلے ذمہ داری لی تھی اور اس کو انتخاب کر چکی تھی جبکہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں تھا، مگر میری بیوی نے جانے سے انکار کر دیا۔ اس پر میں شدید غصے میں رہا، اس وقت میں سونا چاہتا تھا جو کہ میری دوائی اور آرام کی طلب محسوس کر رہا تھا۔

ایک بجے دو پہر 3:30 شام: میں سوناچاہنے کے باوجود جاگتا رہا چھوٹے بھائی کزن کو گوشت لینے بھیجا  اس نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگایا، پھر  اس کو بینک بھیجا وہ بظاہر بہت دیر لگا کر واپس پہنچااس بات سے بھی مجھے غصہ آیا اور اپنی بیوی کی ہٹ دھرمی سمجھ کر بہت غصہ  میں آگیا۔

شام 4 بجے: آرام کی طلب محسوس ہونے کے باوجود میں اے سی لینے چلا گیا اور وہاں پر CR CARD نہ چلا جس کی وجہ سے میں مزید غصہ میں بھی رہا اور ذہنی طور پر تھک گیا اور سر میں شدید درد ہو گیا، پے در پے ایسے واقعات ہوئے کہ اے ٹی ایم مشین تین بینکوں میں کوشش کے باوجود میرا دوسرا DR CARD بھی نہ چل سکا، اس پر میں شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہو گیا اور میرا اپنی بیوی پر غصہ شدید تر ہو گیا، اور شام 7 بجے میں افطاری کے وقت گھر پہنچا، میری بیوی مجھ سے بات  کرتی تھی۔۔۔ جواب نہ دے رہا تھا۔

شام 7 بجے: میں گھر آتے ہی سو گیا اور ہدایت کے باوجود مجھے  7:45 پر میری بیوی نے مجھے جگا دیا، شرعی عذر اور بیماری کی وجہ سے میرا روزہ نہ تھا اور میں قریباً 45 منٹ اور سو کر مغرب کی نماز پڑھ سکتا تھا اس لیے میں شدید غصے میں آگیا اور بیوی کو ذمہ دار قرار دیا اور بیوی کو جھڑکا اس موقع پر مجھے  Reality Contact Lost ہوتا ہوا محسوس  ہو گیا اور میں نارمل محسوس نہ کر رہا تھا۔

8:45 رات: کھانا کھانے کے بعد میں دوائیاں لیں اور کچھ دوائیاں ختم ہو چکی تھی جو کہ منگوانا میری بیوی کے ذمہ تھا میں مزید غصہ میں آیا اور بیوی سے کہا کہ دوائیاں نہ منگوا کر اور میرا کھانا جو کہ عام طور پر بہت پرہیزی ہوتا ہے وہ بھی ہرگز اس پرہیز کے معیار پر نہ تھا، اس پر میں نے بیوی پر غصہ میں دو الزامات لگائے:

1۔ یہ اس نے جان بوجھ کر کیا ہے اور میری بیماری میں اضافہ کر کے بدلہ لینا چاہتی ہے۔

2۔ اس کے علاوہ اس وقت میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ آج میں اس کو تین طلاق دے دوں گا، اس کے بعد میں آرام کے لیے لیٹ گیا جبکہ مطلوبہ غیر موجود دوائیاں منگوا کر میری بیوی نے مجھے دی دیں، دوائیاں لیتے ہی مجھے دوائیوں کے مندرجہ ذیل اثرات شروع ہو گئے:

1۔ غنودگی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے Dizziness

2۔ ذہن بہت Slow ہو جاتا ہے۔

3۔ ذہن انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔

میں آرام کے لیے لیٹ گیا تو میری بیوی میری ہدایت کے برعکس کہ مجھے تنگ نہ کرنا، کمرے میں آکر بات کرنے لگی، میں نے اس کو سختی سے کہا کہ میں بات نہیں کرنا چاہتا مگر اس نے اصرار کیا تو میں نے کہا اب میں تمہیں اپنے ساتھ نہیں رکھنا، اس وقت وہ چلی گئی مگر تھوڑی دیر بعد دوبارہ آکر بات کرنے کی کوشش کی، اس پر میں نے کہا کہ میں وہ الفاظ (طلاق یعنی) بول دوں گا تم یہاں سے چلی جاؤ، اس دوران وہ فون سننے دوسرے کمرے میں گئی، میں نے سوچا کہ یہ اب اپنے گھر والوں سے شکایت کر رہی ہے، میں مصمم ارادہ کر کے  انتظار کرنے لگا کہ اس کے آتے ہی میں تین طلاق کے الفاظ بول دوں گا، اس وقت دن میں تیسری دفعہ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میرا  Reality Contact Lost ہو رہا ہے، مگر اس کی شدت اتنی نہ تھی جو کہ 4 جون سے پہلے ہوتی تھی کیونکہ ڈاکٹر نے میری دوائی کی مقدار کم کر دی۔

میرے خیال میں اس وقت پوری ہوش میں تھا حواس میں تھا کیونکہ Reality Contact Lost وقفوں میں ہوتا ہے۔ جبکہ میری بیوی کے مطابق میری کیفیت یہ تھی کہ میں بھی جانتا ہوں کہ یہ درست ہے کہ تین طلاق کے الفاظ کہتے وقت میرے ہاتھ مڑے تھے اور چہرے پر لقوے کے اثرات تھے، بات ٹھیک نہیں کہی جا رہی تھی یہ بھی میری دوائیوں کے اثرات ہیں۔

بیوی کا بیان

مفتی صاحب! جس دن یہ واقعہ پیش آیا اس دن میرے خیال کے مطابق ارشاد اللہ کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی، صبح کے وقت جب یہ سیر کے لیے گئے تو راستے میں ایک بچہ آگے آیا جسے ان کے مطابق ان کا دل چاہا کہ گاڑی کے نیچے دے دیں، دوپہر کے وقت جب یہ اے سی خریدنے گئے تو ان سے اے ٹی ایم سے پیسے نہیں نکلوائے گئے، گھر آکر اے ٹی ایم کے کال سینٹر کے نمائندے سے شدید بحث بلا وجہ کی، جب گھر آئے اور ان کو کھانا دیا گیا تو ان کو شدید غصہ آگیا اور انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ تم نے کھانے میں میری بیماری کے باوجود جان بوجھ کر نمک مرچ زیادہ ڈالا، اس کے بعد جب دوائی دی گئی اور ایک گولی کم تھی تو انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ مجھے سمجھ آرہی ہے کہ تم میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہی ہو، اسی صورت حال میں جب ان سے میری بحث ہو گئی تو اس بحث میں انہوں نے مجھے کہا کہ ’’میں نے تمہیں طلاق دی، طلاق دی، میں نے تمہیں طلاق دی‘‘۔ اس وقت میرا خیال ہے کہ یہ بالکل بھی صحیح ذہنی حالت میں نہیں تھے، ان کے ہاتھ اور منہ جس طرح لقوہ ہوتا ہے اس طرح ٹیڑھے ہوئے ہوئے تھے، ان کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی، تقریباً دو ماہ سے مسلسل خراب تھی اس کے لیے ہم ایک ذہنی امراض کے ڈاکٹر سے ایک دن پہلے بھی مل کر آئے تھے، اس واقعے کے بعد بھی جب ڈاکٹر سے رجوع کیا تو انہوں نے کہا یہ ڈیلیریم ہے یہ ایک طرح کا وقتی پاگل پن کہلاتا ہے جس میں آپ سوچ سمجھ تک نہیں سکے یہاں تک کہ آپ کا حقیقت سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اتنی بات تو واضح ہے کہ سائل ایسی ذہنی بیماری کا مریض ہے جس میں عقل بحال نہیں رہتی۔ تاہم عین طلاق کے واقعے میں سائل بیماری کی اس کیفیت سے دو چار تھا یا نہیں؟ یہ قابل غور ہے۔دواؤں کے استعمال اور مریض کے بیان کردہ ذہنی حالات و کوائف سے معلوم ہوتا ہے کہ مریض ابھی تک بیماری کے زیر اثر ہے۔ اس لیے مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved